امریکی میڈیا کا اعتراف، ایرانی میزائل جارحین کو سخت جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں
ایک امریکی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائل ممکنہ جارحین کو بدترین جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔
سحر نیوز/ ایران: امریکی تجزیاتی ویب سائٹ نے لکھا کہ ایران نے جارحیت کا جواب مختلف قسم کے میزائلوں اور ڈرونز سے دیا ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایک امریکی فوجی تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق، ایران کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا اور متنوع بیلسٹک میزائل ذخیرہ ہے۔
نائنٹی فورٹی فائیو نامی ویب سائٹ میں مشرقی وسطی میں دفاعی امور کی تجزیہ نگار مایا کارلین لکھتی ہیں کہ فوجی صلاحیت کے لحاظ سے ایران کا امریکہ، چین اور کئی دوسرے ممالک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا تاہم ایران نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بڑی تعداد میں میزائل بنائے ہیں کہ جو بھی اس ملک پر حملہ کرنے یا جارحیت کی کوشش کرے گا اسے بدترین سزا دی جائے گی۔
اس سلسلے میں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنی سالانہ پریڈ میں فضائی کروز میزائل کی رونمائی کی۔ ماہرین کے مطابق اس ہتھیار کے ٹریپیزائڈل نیٹ ورک کے پنکھوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے کسی نہ کسی طریقے سے ہدایت دی جا سکتی ہے۔
آئی آر جی سی نے اپنے نئے "شہید 136" خودکش ڈرون کا بھی مظاہرہ کیا۔ درحقیقت ایران کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا اور متنوع بیلسٹک میزائلوں کا ذخیرہ ہے۔
ایران نے حالیہ برسوں میں اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ 2015 سے اب تک تین زیرزمین میزائل کمپلیکس کی رونمائی کر چکا ہے جو اب تک مخفی تھے۔
امریکی دہشت گرد فورس سینٹ کام کے سابق کمانڈر جنرل کینت میکنزی کے مطابق ایران کے پاس 3000 سے زیادہ بیلسٹک میزائل ہیں۔ ان ہتھیاروں کے ذخیروں میں سٹیک، مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے میزائل شامل ہیں۔
میک کینزی نے کہا کہ فوجی سطح پر، میری پہلی تشویش یہ ہے کہ ان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں لیکن مجھے ایرانی بیلسٹک میزائل پروگرام کی نمایاں نمو اور تاثیر کے بارے میں بھی تشویش ہے۔
تہران نے فروری میں اپنے "خیبر شکن " میزائل کی بھی رونمائی کی تھی۔ 1450 کلومیٹر یعنی (900 میل) کی رینج کے ساتھ، یہ ہتھیار سرکش دشمنوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مارچ میں پاسداران انقلاب اسلامی نے عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل میں امریکی قونصل خانے کی عمارت کے قریب راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
مقالہ نگار آخر میں لکھتی ہیں کہ ایرانی بیلسٹک میزائلوں کی تعمیر اسرائیل اور مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجیوں کے لیے شدید خطرہ ہے۔