گیس برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم کا اجلاس
ایران کے وزیر پیٹرولیم جواد اوجی نے گیس برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم جی ای سی ایف کے اجلاس میں شریک مختلف ملکوں کے وزارئے پٹرولیم سے ملاقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
جی ای سی ایف کے رکن ملکوں کے وزرائے پٹرولیم سے بات چیت کرتے ہوئے ایران کے پٹرولیم کے وزیر جواد اوجی کا کہنا تھا کہ تہران اس تنظیم کے رکن ملکوں کو فنی اور تعمیراتی خدمات فراہم کرنے اور تجارتی لین دین میں اضافے کے لیےآمادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران گیس کی صنعتوں کو ترقی دینے میں بھی رکن ملکوں کی مدد کرسکتا ہے۔
جواد اوجی نے کہا کہ ایران گیس کی صنعتوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ لازمی ٹیکنالوجی اور افرادی قوت بھی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جی ای سی ایف کے رکن ملکوں کے ساتھ ہونے والی مفاہمت کو سجھوتوں اور معاہدوں میں تبدیل کردیا جائے اور تہران اس حوالے سے بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔
گیس برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم جی ای سی ایف کی وزارتی کونسل کا اجلاس منگل کی شام مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں منعقد ہوا جس میں توانائی کی پیداوار کے حوالے سے مختلف معاملات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں گیس کی برآمدی قیمت کے موجودہ نظام کی تبدیلی کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا کیا۔
اجلاس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر انجام پانے کوششوں اور مداخلت کے باعث عالمی منڈی میں جاری بحران مزید شدت پیدا کرجائے گا اور اس سے سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور صارفین کو یکسان نقصان پہنچے گا۔
قاہرہ اجلاس میں شریک مندوبین نے یہ بات زور دے کہی کہ دنیا میں رونما ہونے والے حالیہ جیوپولیٹکل واقعات اور تناؤ کے نتیجے میں عالمی سطح پر گیس کی سپلائی میں استحکام کی ضرورت پوری طرح اجاگر ہوگئی ہے۔
الجزائر، بولیویا، مصر، استوائی گنی، ایران، لیبیا، نائیجیریا، قطر، روس، ٹرینیڈاڈ، ٹوباگو اور وینیز ویلا جی ای سی ایف کے گیارہ رکن ممالک ہیں جبکہ ملائیشیا، ناروے، عراق، پیرو، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات اور موزمبیق کو اس تنظم میں مبصر کا درجہ حاصل ہے۔
دنیا کے ستر فی صد سے زائد گیس کے ذخائر رکھنے والی اس تنظیم کی بنیاد ایران، قطر اور روس نے رکھی تھی اور اس کا ہیڈ کوارٹر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہے۔
جی ای سی ایف کے رکن ممالک دنیا کی تینتالیس فی صد گیس پیدا کرتے ہیں جسکا پچاس فیصد حصہ پائپ لائنوں کے ذریعے جبکہ باقی حصہ ایل این کی جی کی صورت میں دنیا کو برآمد کیا جاتا ہے۔