Oct ۰۳, ۲۰۲۵ ۱۷:۲۲ Asia/Tehran
  • حضرت معصومہ (س) کی وفات کیسے ہوئی؟ شہادت یا مرض کی وجہ سے؟

حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی وفات کی کیفیت شیعہ تاریخ میں بحث انگیز موضوع رہی ہے۔ بعض منابع بیماری کا ذکر کرتے ہیں جبکہ بعض روایات زہر دینے اور شہادت کی بات کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں تسنیم نیوز ایجنسی نے ایک مقالے میں کچھ نکات کا ذکر کیا ہے جو پیش ہیں۔

سحرنیوز/ایران: حضرت فاطمہ معصومہ (س)، امام موسی کاظم (ع) کی بیٹی اور امام رضا (ع) کی بہن، اہل بیت (ع) کی ممتاز شخصیات میں سے ہیں ۔ صدیوں سے، مورخین اور محدثین کے درمیان ان کی وفات کی کیفیت کے بارے میں اختلاف رائے رہا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا حضرت معصومہ (س) قدرتی موت سے  اس دنیا سے گئیں یا اہل بیت (ع) کی  بہت سی دیگر شخصیات کی طرح  وہ بھی شہید ہوئیں؟

 

1 - کتاب بحر الانساب کی روایت اور قم میں شہادت کا دعوی

کتاب بحر الانساب کے قلمی نسخے میں آیا ہے کہ حضرت معصومہ (س) کے ساتھ 23 امامزادے بغداد سے قم کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ جب وہ قم پہنچے تو ساوہ  میں رہنے والے  مخالفین اور ملحدین نے ان  پر حملہ  کیا اور جھڑپ کے بعد حضرت معصومہ (س) کو شہید کر دیا۔[1]

یہ روایت صراحتا شہادت کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن اس کتاب کا ابومخنف سے منسوب ہونا مشکوک ہے کیونکہ ابومخنف دوسری ہجری صدی میں فوت ہوئے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ  انہوں نے اپنے بعد کے واقعے کے بارے میں کچھ لکھا ہو۔ اس لیے بعض محققین نے اس کتاب  ابو مخنف سے منسوب کئے جانے کو مسترد کیا  اور اسے تیرہویں ہجری صدی کے میرزا محمد ملک الکتاب شیرازی کی تالیف قرار دیا ہے جو بعد میں بمبئی میں چھپی تھی۔  اس سے اس روایت پر اعتبار کم ہوتا ہے۔

 

2- علامہ مجلسی کی بحار الانوار میں روایت

علامہ محمد باقر مجلسی بحار الانوار میں زيادہ دقیق روایت پیش کرتے ہیں:

جب مامون نے سن 200 ہجری میں امام رضا علیہ السلام  کو مدینہ سے مرو بلایا تو حضرت معصومہ (س) بھی سن 201 ہجری میں بھائی سے ملنے کے لیے روانہ ہوئیں۔ راستے میں، جب وہ ساوہ پہنچیں تو بیمار ہو گئیں اور ساتھیوں سے پوچھا کہ قم کتنے فاصلے پر ہے ۔ جب انہيں بتایا گيا کہ دس فرسخ (تقریباً 60 کلومیٹر)، تو انہوں نے  کہا کہ انہیں قم لے جایا جائے۔ قم کے لوگ ان کے استقبال کو آئے  اور موسی بن خزرج اشعری نے حضرت  معصومہ کی اونٹنی کی مہار پکڑی اور انہیں اپنے گھر لے گئے۔ حضرت معصومہ  سلام اللہ علیہا سترہ دن ان کے گھر میں رہیں اور پھر  ان کا انتقال ہو گيا ۔

علامہ مجلسى کی رپورٹ میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  کی شہادت یا بیماری کے کیس  بیرونی عامل کا کوئی ذکر نہیں ہے؛ صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ "بیمار ہو گئیں" اور پھر ان کی وفات ہو گئی۔

 

3- سید جعفر مرتضی عاملی کا تجزیہ اور زہر دینے کا مفروضہ

معاصر مورخ، علامہ سید جعفر مرتضی عاملی، کتاب الحیاة السیاسیة للامام الرضا(ع) میں بعض تاریخی حوالے سے لکھتے ہیں:

مامون  نے علویوں کے ایک قافلے کو، جو خراسان جا رہا تھا، نشانہ بنایا۔ اس قافلے میں ہارون بن موسی (امام رضا (ع) کے بھائی) اور حضرت معصومہ (س) موجود تھیں۔ مامون کے سپاہیوں نے قافلے پر حملہ کیا، ہارون بن موسی  کو شہید کر دیا ۔ حضرت معصومہ (س) بھی اس دوران ساوہ میں زہر کا شکار ہوئیں۔ وہ تھوڑے عرصے کے لیے بیمار رہیں اور پھر شہید ہو گئیں۔

یہ روایت صراحتاً بیماری کی وجہ زہر دینا بتاتی ہے۔ اگرچہ اس واقعے کے لیے مضبوط اور قطعی سند پیش نہیں کی گئی، لیکن یہ مجلسى کی رپورٹ کے بھی خلاف نہیں ہے؛ کیونکہ مجلسى نے صرف بیماری کا ذکر کیا ہے، اس کی وجہ بیان نہیں کی۔ اس فریم ورک میں، بیماری زہر کا اثر ہو سکتی ہے۔

 

4-مصادر و منابع کتنے معتبر ؟

درست تجزیے کے لیے منابع  کے اعتبار پر توجہ دینا ضروری ہے:

بحر الانساب: اس کا ابومخنف سے منسوب ہونا مشکوک ہے اور اس کا تیرہویں صدی ہجری میں تالیف ہونا زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا، اس کتاب سے قطعی طور پر استناد مشکل ہے۔

بحار الانوار: یہ ایک جامع اور معتبر کتاب ہے، لیکن علامہ  مجلسى نے بھی اقوال نقل کیے ہیں اور بعض موارد میں مکمل سند پیش نہیں کی۔ حضرت معصومہ (س) کے معاملے میں، ان کی روایت زیادہ تر مشہور تاریخی حوالوں پر مبنی ہے۔

الحیاة السیاسیة للامام الرضا(ع): یہ معاصر تحقیق ہے اور بعض  حالیہ منابع کا بھی اس میں ذکر ہے ۔ اس کی اہمیت واقعے کے سیاسی تجزیے اور بنی عباس کی اہل بیت (ع) سے دشمنی کے  تناظر میں ہے لیکن سندیت کے لحاظ سے، یہ  قابل اعتماد  شمار نہیں ہوتی۔

 

5- تاریخی پس منظر: بنی عباس کی اہل بیت (ع) سے دشمنی

مسئلہ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے تاریخی حالات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ عباسیوں نے، جو ابتدا میں اہل بیت (ع) کی نصرت کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے،  اقتدار ہاتھ میں آنے کے بعد علویوں پر بے حد شدید دباؤ ڈالے اور ظلم کئے۔

ہارون کی جیل میں امام موسی کاظم (ع) کی شہادت،مامون کے ذریعے امام رضا (ع) کو مرو بلانا اور مختلف مقامات پر علوی تحریکوں کو کچلنا،اس دشمنی کی واضح مثالیں ہیں۔ لہذا، حضرت معصومہ  سلام اللہ علیہا کی شہادت کا خیال اس تاریخی پس منظر کے مطابق ہے کیونکہ عباسی حکومت امام کاظم  علیہ السلام  کے فرزندوں  ان کے معنوی اثر و رسوخ کو اپنے لئے سنگین خطرہ سمجھتی تھی۔

 

نتیجہ:

1-فطری  وفات کا  نظریہ: یہ علامہ مجلسى کی  روایت پر مبنی ہے، جس کے مطابق حضرت معصومہ (س) نے  نامعلوم بیماری کی وجہ سے وفات پائی۔

2- قم میں براہ راست شہادت کا نظریہ: بحر الانساب کی روایت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  کو ساوہ کے مخالفین کی طرف سے شہید قرار دیتی  ہے لیکن تاریخی اعتبار سے  یہ روایت کمزور ہے۔

3- ساوہ میں زہر کی وجہ سے شہادت کا نظریہ: سید جعفر مرتضی عاملی کا تجزیہ، عباسیوں کے سیاسی ماحول اور تاریخی حقائق  کے تناظر میں ، زہر کے ذریعے شہادت کو قرین قیاس قرار دیتا ہے۔

شواہد کی روشنی میں اور  تاریخی طور پر قطعیت کے ساتھ  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت فاطمہ معصومہ  سلام اللہ علیہا کو شہید کیا گيا تھا کیونکہ معتبر  منابع و مصادر میں  اس  کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں ہے  لیکن سیاسی قرائن و شواہد، خاص طور پر مامون کی علویوں سے دشمنی اور  کچھ روایتوں کے پیش نظر  ان کی شہادت کے امکان کو تقویت ملتی ہے۔

لہذا، زہر کی وجہ سے ہونے والی بیماری سے وفات کا نظریہ، اگرچہ قطعی سندیت  نہیں رکھتا لیکن یہ خیال علامہ مجلسى کی روایت اور معاصر حوالوں  پر مشتمل اور تاریخی اور سیاسی اعتبار سے زیادہ معقول نظر آتا ہے۔

بہر حال، چاہے ہم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  کی وفات کو شہادت سمجھیں یا قدرتی موت، جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ ایران کے شہر  قم میں ان کا روضہ،  عظیم برکتوں کا باعث  ہےیہاں تک کہ قم،  عالم تشیع کے اہم ترین علمی اور مذہبی مراکز میں  شامل ہو گیا ہے اور ان کا حرم صدیوں سے ہزاروں علماء اور مجاہدین کے لیے باعث درس و حوصلہ رہا ہے ۔

(تسنیم فارسی سے ماخوذ) 

 

ٹیگس