ایران میں انقلاب کی کامیابی کے اسباب
ڈاکٹر میر سپاسی نے تہران یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں بی اے اور عالمی تعلقات عامہ میں ایم اے کیا ہے جبکہ سوشل سائنس میں امریکی یونیورسٹی سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔
ڈاکٹر میر سپاسی موجودہ وقت میں نیویارک کی گیلٹین یونیورسٹی میں مشرق وسطی کے امور کے محقق اور سوشل سائنس کے شعبے کے پروفیسر ہیں ۔ وہ ایران اور پیشرفتہ ایران کے موضوع پر اپنے نظریات بیان فرماتے ہیں ۔ میر سپاسی 2007 سے 2009 تک امریکا کے کارنیگی تحقیقاتی شعبے کے محقق بھی رہے ہیں ۔ انہوں نے متعدد کتابیں اور مقالے بھی لکھے ہیں ۔ ان کتابوں کا ایران کے دانشور طبقے نے بہت زیادہ استقبال کیا ہے ۔
ڈاکٹر میر سپاسی ان دانشوروں میں ہیں جنہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کے مذہبی پہلو سمیت ایران کے بارے میں مؤثر نظریات پیش کئے ہیں ۔ انہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب میں " انقلاب کے واقع ہونے میں سیکورزم کے کردار" کے پہلو کا جائزہ لیا ۔ ڈاکٹر میر سپاسی ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسلامی انقلاب وہ اہم موڑ ہے جس نے ہمارے دور میں سیکورزم کے سیاسی بحران کو پیش کیا۔ دوسرے الفاظ میں ایران کے اسلامی انقلاب اور ایران کے بارے میں نظریہ پیش کرنے والے دوسرے محققین اور دانشوروں کی طرح ڈاکٹر میر سپاسی کا بھی خیال ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کا آنا، حکومت پہلوی کے مد نظر جددیت کے مقابلے میں ایرانی عوام کی مضبوط مخالفت اور رد عمل کا نتیجہ تھا جو عوام کے درمیان اسلامی ثقافت اور مذہب شیعہ کی تبلیغ کا سبب بنا ۔
میر سپاسی کا یہ خیال ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے 1960 اور 1970 کی دہائی میں ثفافتی، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں ایرانی معاشرے کو مغربی رنگ میں ڈھالنے اور اس کی تعمیر نو کی کوشش شروع کی تاہم اس طرح کا رویہ، خود ایرانی معاشرے کی مرکزیت اور غیر ملکی ثقافت کی جانب جانے کا سبب بنا اور اس کے ساتھ ہی یہ چیز نہ صرف ایران کے شاہ کی ظالمانہ پالیسیوں میں تبدیلی کی وجہ نہ بنی بلکہ اس سے یہ ظلم مزید مضبوط ہو گیا ۔
ڈاکٹر میر سپاسی کا خیال ہے کہ ایران کے شاہ کی تعمیر نو کی پالیسیوں کی وجہ سے شہروں کی جانب مہاجرت، طبقات کے درمیان فاصلے، غریبی اور معاشرے میں ديگر برائیاں پیدا ہوئیں، اس سے عوام میں مخالفت بڑھنے لگی اور اس حوالے سے ان کی بیداری میں اضافہ ہوتا گیا ۔