دنیا کے انقلابات اور ایران کے اسلامی انقلاب میں فرق
ایران میں امریکا کے آخری سفیر ولیم ہیلی سولیان اپنی کتاب "مشن ٹو ایران" میں اس ملک میں امریکا کی موجودگی کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ ایران و امریکا کے تعلقات کے بارے میں دو باتوں نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کر رکھا تھا۔ پہلی بات ایران میں ہماری سرگرمیوں کی روش اور اس ملک کو ہتھیار نیز فوجی ساز و سامان کی فروخت تھی ۔
ایران میں ہماری فوجی مشیروں نے ایسے حالات میں کام شروع کیا تھا کہ امریکا کی بنیادی پالیسی، ایران کو اسلحوں اور فوجی ساز و سامان کی غیر محدود فروخت پر مبنی تھی جو 70 کے عشرے میں طے ہوئی تھی ۔ اس وقت ایران میں ہمارا فوجی وفد بنیادی طور پر اس ملک کے لئے ہتھیاروں کی خریداری کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا تھا ۔
کام کا یہ طریقہ تھا کہ ایرانی حکام، امریکی مشیروں سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے ہتھیاروں کا آرڈر دیتے تھے اور امریکی فوجی ٹیم ان ہتھیاروں کو خرید کر ایران کے حوالے کرتی تھی ۔ ان ہتھیاروں کی رقم ایران کے تیل کی فروخت سے ادا کی جاتی تھی اور یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی ۔
مشرق وسطی خاص طور پر تاریخ ایران کے ماہر یاروند ابراہیمیان اپنی کتاب Iran Between Two Revolutions میں حکومت پہلوی میں امریکا سے ایران کے تعلقات کو خصوصی تعلقات کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں ۔ 1789 میں فرانس کا انقلاب اور 1917 میں روس کا انقلاب ایسی حالت میں رونما ہوا کہ ان دونوں ملکوں کی حکومتوں کو غیر ملکی حمایت حاصل نہیں تھی تاہم ایران میں شاہ کی حکومت کو غیر ملکی طاقتوں خاص طور پر امریکا کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔ اس کے باوجود فروری 1979 میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب ہوا ۔
ان حالات میں ایران کا اسلامی انقلاب نہ صرف یہ کہ بڑی طاقتوں کی جانب سے ایران کی آمر حکومت کی حمایت کے باوجود کامیاب ہوا بلکہ وہ مغربی اور مشرقی بلاکوں کے مد مقابل ڈٹ گئی ۔
سابق سوویت یونین اور امریکا کی قیادت میں دنیا پر مشرقی اور مغربی بلاکوں کے تسلط اور علاقے نیز دنیا کے سبھی اتحادیوں اور سیاسی، اقتصادی اور سماجی امور پر ان کا حق ہونے کے باوجود ایران کے انقلابی رہنماؤں نے ملک کی خارجہ پالیسی کے لئے "نہ مغرب نہ مشرق" کا نعرہ دیا ۔
اس پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی ایران، عالمی نظام کے دو بڑے محاذوں کے مد مقابل آ گیا ۔ اس طرح خودمختاری، اسلامی انقلاب کا ایک اصل نعرہ بن گیا کیونکہ بنیادی طور پر اسلامی انقلاب ایک خودمختار نظام تھا جو دنیا کے دانشوروں اور اہم شخصیات کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔
یہی بات مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکا کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ چار دہائی کے بعد بھی دشمنی جاری رہنے بلکہ اس میں اضافہ کی اصل وجہ ہے ۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد کے ایران میں اصل فرق خودمختاری کا ہے ۔