Jan ۱۴, ۲۰۱۹ ۱۰:۰۹ Asia/Tehran
  • ایران کا اسلامی انقلاب اور واقعہ کربلا

مغربی دانشور اور محقق فشر کا خیال ہے کہ ایران کا حکمراں محمد رضا پہلوی جمہوری حکومت اور احزاب نیز سرمایہ داری سے مقابلے کے بغیر صرف ایک انتظامی ڈھانچے کے ذریعے ملک کو تیسری دنیا کے ممالک کے حالات سے نکالنا چاہتا تھا ۔

ایران کی حکومت انقلاب سے پہلے تک بہت حد تک ابھرتے ہوئے سرمایہ داروں کے طبقے پر منحصر تھی لیکن اس طبقے کی سیاست میں حصہ داری کے حوالے سے نظریات بہت محدود تھے ۔

فشر انقلاب کے وقت کے ایرانی نوجوانوں کو ایسے افراد قرار دیتے ہیں جو مذہبی لحاظ سے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کو پیشرفتہ نظریات سے دیکھ رہے تھے۔

فشر اپنی کتاب "ایران: مذہبی اختلافات سے انقلاب تک" میں لکھتے ہیں کہ پہلوی دور حکومت میں سیاسی ماحول کے بند رہنے اور متعدد طرح کی بحثوں کی سرکوبی کی وجہ سے صرف مذہبی بحثیں ہی مزاحمتی طاقت اور معاشرتی تبدیلی کا خاکہ تیار کرنے والی فورسز کی حیثیت سے سامنے آئیں ۔ ثقافتی عمل جس کا نتیجہ اسلامی انقلاب کے طور پر سامنے آیا، عاشورا کے واقعے کے اس ذکر کا مقام لے کر کے جس میں عاشورا کو صرف رونے اور مجالس کے انعقاد کا مظہر ہی سمجھا جاتا تھا، سیاسی مزاحمت کے طور پر ابھری ۔

مائیکل فشر ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں اپنے جائزے میں واقعہ کربلا کے کردار کو اہم قرار دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی انقلاب در حقیقت ایک طرح سے واقعہ کربلا کا ہی تسلسل تھا ۔

فشر کا کہنا ہے کہ اسلامی انقلاب کے عمل کے دوران کربلا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر رہنے کے بجائے اس امام مظلوم کے نظریات کے لئے جد جہد کا ذریعہ بن گیا ۔

امام حسین کربلا کی جنگ میں شہید ہوئے اور ان کی شہادت شیعوں کی شناخت کا بنیادی عنصر ہے ۔ فشر کا خیال ہے کہ ایران کے عوام نے انقلاب سے پہلے امام حسین کی مظلومت پر گریہ کرنے کے بجائے، ظلم کے خلاف اور شاہی حکومت کے خلاف مزاحمت کا انتخاب کیا ۔

ٹیگس