Dec ۲۳, ۲۰۱۷ ۱۸:۳۳ Asia/Tehran
  • فلسطین میں عالمی تحریک انتفاضہ جاری ہے، اسماعیل ہنیہ

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور کوئی عرب اور اسلامی ملک بیت المقدس سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔

غزہ میں بیت المقدس کے بارے میں گیارہویں بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حماس کے سربراہ اسما‏عیل ہنیہ کا کہنا تھا کہ آج جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے وہ محض فلسطینی انتفاضہ نہیں بلکہ دشمن کے خلاف ایک عالمی تحریک انتفاضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے سب ہی ملکوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
حماس کے سربراہ نے کہا کہ بیت المقدس سرزمین فلسطین کا مذہبی نشان ہے اور اس مقدس مقام کی حفاظت کے بارے میں فلسطینیوں اور صیہونی حکومت کے درمیان سخت جنگ ہو رہی ہے۔
انہون نے کہا کہ صہیونی حکومت بیت المقدس کی مذہبی اور تاریخی حثیت کو تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے تاکہ اس مقدس مقام پر اپنی ملکیت کو ثابت کرسکے۔
حماس کے سربراہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ بیت المقدس نہ صرف مملکت فلسطین کا دارالحکومت ہے بلکہ پورے عالم اسلام کا مذہبی دارالحکومت بھی ہے۔
اسما‏عیل ہنیہ نے بیت المقدس کو مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت ساری دنیا کے حریت پسند انسانوں کے لیے بھی انسانی اور اخلاقی قدروں کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس فلسطینیوں کی ملکیت ہے اور فلسطین کے عوام کسی کو بھی اس شہر کے بارے میں مذاکرات کرنے یا اس سے چشم پوشی کی اجازت نہیں دیں گے۔
اسماعیل ہینہ نے مزید کہا کہ فلسطین کے عوام کو خود فیصلہ کرنا ہوگا اور امریکی سازش کو ناکام بنانے کے لیے مضبوط پالیسی اپنانا ہوگی۔
فلسطینی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر احمد بحر نے بیت المقدس کے بارے میں گیارہویں بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کے مقابلے کے لیے فلسطینیوں کو متحدہ پالیسی اپنانا ہوگی۔
انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے اعلان کو انتہائی خطرناک پہلوؤں کا حامل قرار دیا۔
ادھر فلسطین کی محدود خود مختار انتظامیہ کے وزیر خارجہ نے قدس کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کو فلسطینی عوام کی عظیم کامیابی قرار دیا ہے۔
انہون نے کہا کہ قرار داد کی مخالفت میں ووٹ دینے والے نو میں چار ممالک ایسے ہیں جنکی جگہ پر امریکہ خود ووٹ دے سکتا ہے۔ لہذا امریکہ صرف تین ملکوں ، ٹوگو، ہنڈوراس اور گوئٹے مالا کو ہی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو سکا ہے۔

 

ٹیگس