بیٹے کی کارستانی سے حرکت میں سعودی فرمانروا
ہمیں نہیں لگتا کہ سعودی بادشاہ سلمان بن عبد العزیز اپنے ملک کی یہ بدحالی دیکھنا پسند کرتے ہوں گے جو آج سعودی عرب کی ہے مگر ملک کی یہ حالت خود ان کے بیٹے محمد بن سلمان نے کی ہے۔
انہوں نے سعودی عرب کے سیاسی دلدل میں پھنسا دیا ہے جس کے شروعاتی تباہ کن نتائج تو برآمد ہونے لگے ہیں لیکن یہ ملک کہاں پہنچے گا اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
اس وقت سعودی عرب جن حالات سے دوچار ہے ان میں سعودی بادشاہ سلمان بن عبد العزیز کو اپنی خاموشی توڑنی پڑے گی اور انہوں نے اردن، مراکش اور عمان کے ساتھ سعودی عرب تعلقات کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا کیونکہ ان تینوں ممالک سے سعودی عرب کے قدیمی تعلقات محمد بن سلمان کی ناتجربہ کاری اور ان کے اشارے پر سعودی ٹرول فوج کی جانب سے ان تینوں ممالک کے سینئر حکام کے توہین آمیز حملے کے نتیجے میں بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔
محمد بن سلمان نے اب تک ہر اس شخص کو راستے سے ہٹا دیا جو ان کے فیصلوں اور منصوبوں کے راستے میں رکاوٹ بنتا نظر آیا لیکن اس بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سعودی بادشاہ کو نہیں روک پائیں گے جو صاف طور پر محسوس کر رہےہیں کہ ان کے بیٹے کی پالیسیاں ملک کو تباہی کے دھانے پر لے جا رہی ہیں۔
محمد بن سلمان داخلی اور علاقائی پالیسیوں کی ناکامی اور علاقائی سیاست کی ناکامی کو ملک کے اندر وسیع پیمانے پر خواتین اور نوجوانوں کو آزادی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور سعودی عرب کو دنیا میں آزاد اور مغربی ثقافت کے نزدیک دیکھانا چاہتےہیں۔
سوال یہ ہے کہ اچانک شاہ سلمان کیوں حرکت میں آ گئے؟
پہلا سبب تو یہ ہے کہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کی وجہ سے کویت، اردن، عمان، مراکش اور سوڈان جیسے ممالک بھی سعودی عرب سے دور ہوگئے۔ ملک سلمان کسی بھی حالت میں اردن، مراکش اور عمان کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔ ایک وقت میں اردن اور مراکش کو خلیج فارس تعاون کونسل میں شامل کرنے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔ قطر کا محاصرہ کرکے اسے سر تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کی محمد بن سلمان کی پالیسی کامیاب نہیں ہو پائی بلکہ قطر سے سعودی عرب کے اختلافات مزید بڑھ گئے اسی لئے ترکی سے بھی سعودی عرب کے تعلقات کافی خراب ہوگئے۔ یہی نہیں عالم اسلام میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جنہوں نے اس اختلاف میں یا تو قطر کا ساتھ دیا یا غیر جانبدار رہنا بہتر سمجھا۔
سعودی عرب کے اندر سے بھی اس طرح کی خبریں آ رہی ہیں کہ خود محمد بن سلمان کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ قطر کے محاصرے کی ان کی پالیسی کے برعکس نتائج برآمد ہوئے ہیں جبکہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔
عمان سے تعلقات خراب ہونے کے برے نتائج نے بھی سعودی ملک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ عمان کو خلیج فارسکے علاقے میں تعادل برقرار رکھنے میں موثر ملک قرار دیا جاتا ہے۔ یہی سبب تھا کہ عمان سے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے سعودی بادشاہ نے عمان کے بادشاہ کو سعودی عرب میں منعقد اونٹوں کے فیسٹول میں شرکت کی دعوت دی۔
تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی بادشاہ حرکت میں تو آئے لیکن انہوں نے کافی دیر کر دی ہے اور اب یہ سوال ہے کہ کیا سعودی فرمانروا خارجہ پالیسی کو ہو چکے شدید نقصان کی تلافی کر پائیں گے؟