سعودی ولیعہد کے بارے میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم
پچھلے دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے شاہی محل میں فائرنگ کے واقعے کے بعد سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے منظرعام پر نہ آنے پر سعودی رائے عامہ میں ان کے بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان ریاض کے علاقے الخزامی میں شاہی محل کے قریب اکّیس اپریل کو ہونے والی فائرنگ کے واقعے کے بعد سے منظرعام پر نہیں آئے ہیں جبکہ فائرنگ کے اس واقعے کے فورا بعد بعض ذرائع ابلاغ نے بعض سعودی شہزادوں کی جانب سے کودتا اور محمد بن سلمان کے قتل کی کوشش کی خبر بھی دی تھی۔
ریاض کی پولیس نے فائرنگ کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہی محل کے احاطے کی فضا میں کھلونے والا ایک ڈرون طیارہ داخل ہو گیا تھا جس کی بنا پر فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا تاہم اس واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو تصاویر سے کچھ اور واقعہ پیش آنے کی عکاسی ہو رہی تھی۔آل سعود کے خفیہ رازوں کو فاش کرنے والے ٹوئٹر پر سرگرم مجتہد نامی ایک سیاسی و سماجی کارکن نے فائرنگ کے واقعے کے بارے میں سعودی حکومت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے، باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حملے کا ہدف سعودی ولیعہد محمد بن سلمان تھے اور فائرنگ کے اس واقعے میں دونوں طرف کے سات افراد مارے گئے ہیں۔
فائرنگ کے اس واقعے کے بعد سے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان، ذرائع ابلاغ کی نگاہوں سے تقریبا غائب رہے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی خبر تک نہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں- یہاں تک کہ وہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں کے موقع پر بھی کہیں نظر نہیں آئے ہیں۔اس سلسلے میں ایران کے اخبار کیہان نے ایک خفیہ سراغ رساں ادارے کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اکّیس اپریل کو رونما ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو دو گولیاں لگی ہیں اور ان کی ممکنہ ہلاکت کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔ایران کے اس اخبار کے مطابق ایسے قابل غور وسیع شواہد موجود ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ سے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا سامنے نہ آنا کوئی فطری یا معمولی بات نہیں ہے اور اس سے ایک ایسے واقعے کا پتہ چلتا ہے کہ جسے دوسروں سے خفیہ رکھے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔