تحریک مزاحمت کے مقابلے میں اسرائیل کی پسپائی
فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں شدت پیدا ہونے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر نئی جارحیت کے منصوبے سے پسپائی اختیار کر لی ہے۔
اسرائیل کی سلامتی کی کمیٹی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر حملے کا سرے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا۔
یہ دعوی ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیل کے وزیر انصاف آئیلٹ شاکد اور وزیر توانائی یووال اشٹائینیٹز نے پچھلے دنوں غزہ کے خلاف بھرپور جنگ مسلط کرنے اور حماس کے خاتمے کے لیے اس علاقے پر قبضہ کر لینے کی دھمکیاں دی تھیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کن وجوہات کی بنا پر اسرائیل نے غزہ پر ہمہ گیر جارحیت کے منصوبے سے پسپائی اختیار کی ہے۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے ایئر ڈیفینس توانائیوں میں اضافے کو اسرائیلی منصوبے سے پسپائی کی ایک اہم وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ دنوں غزہ سمیت القسام اور القدس بریگیڈ کے ٹھکانوں پر کیے جانے والے میزائل حملوں پر تمام فلسطینی تنظیموں نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔
یہاں تک کہ مزاحمتی تنظیموں کے مسلح بریگیڈ کے جوانوں نے اسرائیل پر ایک سو تیس میزائل اور راکٹ داغے تھے جو صیہونی حکومت کے آئرن ڈوم نامی دفاعی نظام میں رسوخ کر کے مختلف اہداف پر لگے۔
مزاحمتی تحریکوں کے حملوں نے صیہونی حکومت کو شدید خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔
اسرائیل کی پسپائی کی دوسری اہم وجہ تاریخی تجربہ ہے۔
اسرائیل نے پینتیس برس تک غزہ پر قبضہ کیے رکھا اور آخر کار دو ہزار پانچ میں اسے علاقے کو چھوڑنا پڑا تھا۔
درحقیقت اسرائیل نے جب غزہ پر اپنا ناجائز قبضہ ختم کیا تھا اس وقت فلسطینی گروہ آج کی طرح طاقتور نہیں تھے اور اگر اسرائیل ایک بار پھر غزہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بدامنی اور جنگ کا دائرہ پورے مقبوضہ فلسطین تک پھیل جانے کا اندیشہ ہو جائے گا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے خلاف کوئی بھرپور جنگ شروع کر سکے کیونکہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بقول پچھلے چند عشروں سے اسرائیل کو حملہ کر کے بھاگ جانے کی عادت پڑ گئی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ اسرائیل، فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کی عوامی حمایت اور اسی طرح عالم اسلام میں اسرائیل کے خلاف پائے جانے والی نفرت میں اضافے جیسے معاملات سے بھی سخت خوفزدہ ہے۔