اردن کے بیان سے صیہونی حکومت کی نیندیں حرام ... مقالہ
اردن کے بادشاہ عبد اللہ دوم نے تین دن پہلے اچانک اعلان کر دیا کہ باقورہ اور الغمر نامی علاقوں کو اسرائیل کو لیز بھی دینے کے متعلق سمجھوتے کی مدت پوری ہو جانے کے بعد اب اس کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی ۔
اردن کے اس اعلان سے اسرائیل میں کھلبلی مچ گئي ہے اور اسرائیلی حکام نے دھمکیاں دینا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر زراعت اوری اورئیل نے کہا کہ اگر اردن نے ایسا کیا تو اردن کے دار الحکومت امان کو جانے والی پانی کی سپلائی روک دی جائے گی ۔
اردن کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے ملک کے عوام کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہو رہی ہے اس لئے اردن میں عوام اسرائیل کو غیر قانونی غاصب صیہونی حکومت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ۔
اردن حکومت کے اس فیصلے میں یہ پیغام چھپا ہے کہ وہ امریکا اور اسرائیل کے دباؤ میں آنے کے بجائے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ڈیل آف سنچری کو معطل کرنا چاہتی ہے۔ ڈیل آف سنچری میں یہ نکتہ شامل ہے کہ اردن بیت المقدس کے مذہبی مقامات کی نگرانی کا اپنا حق کھو دے گا۔
اردن اس وقت سخت اقتصادی حالات سے گزر رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس کے خلاف تادیبی اقتصادی اقدامات کئے اس لئے حکومت نے سبسڈی کم کرنے اور ٹیکس بڑھانے جیسے اقدامات کر کے عوام سے مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک زمینی حقیقت ہے کہ اگر حکومت نے عوام کے مطالبات کا احترام کیا تو عوام کبھی بھی حکومت کو مایوس نہیں کرے گی ۔
حالیہ دنوں میں جن لوگوں نے بادشاہ اردن سے ملاقات کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ عبد اللہ دوم، امریکا اور اسرائیل کے دباؤ اور عرب ممالک کو سخت رویے سے بہت زیادہ ناراض ہیں جبکہ ملک کے اقتصادی مسائل نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔
آئندہ کچھ ہفتوں اور مہینوں میں امریکا اور اسرائیل کا دباؤ اردن پر بڑھے گا کہ وہ باقورہ اور الغمرہ کے مسئلے میں اپنا فیصلہ واپس لے لے۔ ان حالات میں حکومت کو زبردست عوامی حمایت کی ضرورت ہے۔ اردن اقتصادی طور پر ہو سکتا ہے کمزور ہو جائے لیکن اس کی پوزیشن بہت اہم ہے۔ اردن کے عوام ہمیشہ فلسطین کے ساتھ رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جزیرہ وادی عربا کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ اردن کا جو سمجھوتہ ہے اسے وہ مکمل طور پر معطل کر دے گا۔