طالبان اورامریکہ کے امن مذاکرات
قطر میں افغان طالبان اور امریکی حکام کے مابین ہونے والے امن مذاکرات میں 17 سال سے جاری جنگ بندی سمیت اتحادی افواج کے افغانستان سے مشروط انخلا پر اتفاق ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں قیامِ امن کی راہ ہموار ہوتی نظر آرہی ہے اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان قطر کے شہر دوحا میں 6 روز سے جاری امن مذاکرات میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے اور طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کی شرائط پر اتفاق ہوگیا ہے جس کے تحت غیر ملکی فوجیں 18 ماہ کے دوران افغانستان چھوڑ دیں گی جب کہ طالبان نے واشنگٹن کا اہم مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے افغان سرزمین امریکا مخالف استعمال نہ ہونے دینے اور داعش کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کامیاب مذاکرات سے متعلق ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروپگنڈہ ہے اس لئے کہ جب تک امریکہ افغانستان سے نکل نہیں جاتا اس قسم کے مذاکرات فضول اور بیہودہ ہیں۔
ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور امریکا مذاکرات میں پاکستان سہولت کار تھا ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر اپنی ذمہ داری پوری کردی۔
غیرملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان اور امریکی حکام سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے سہولت کار کا کام کیا، ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر اپنا ہدف پالیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ملاقاتوں سے ہونے والی پیشرفت سے تمام چیزوں کا تعین ہوگا، امن مذاکرات پر پیشرفت دوحا میں ہونے والی ملاقاتوں کے نتائج پر منحصر ہے، یہ بات ابھی یقینی نہیں کہ طالبان افغان حکومت کو مذاکرات میں شامل کرتے ہیں یا نہیں، کیا بات چیت ہوتی ہے؟ یہ عمل کیسے آگے بڑھتا ہے، ہونے والی ہر ملاقات کی پیشرفت پر منحصر ہے۔
واضح رہے کہ تقریبا 17 سال بعد اب امریکہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہے اور کسی بھی مسئلے کا حل فوجی طاقت نہیں بلکہ گفتگو اور بات چیت ہے۔