عمران خان کا بیان پاک افغان تعلقات کشیدہ
پاکستان کے وزیر اعظم کے افغانستان سے متعلق بیان پرکابل میں پاکستانی سفارتکار کو ایک بار پھر وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرزکے مطابق افغان وزارت خارجہ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ افغان حکومت نے امن مذاکرات سے متعلق پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیان کی وضاحت کے لیے افغانستان میں تعینات پاکستانی سفارتکار کو ایک بار پھروزارت خارجہ میں طلب کیا۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پرکہا کہ افغان وزارت خارجہ نے پاکستانی سفارت کار کو عمران خان کے اس بیان پر اعتراض اٹھانے کے لیے طلب کیا، جو داخلی امور میں واضح مداخلت ہے۔
پاکستانی سفارت کار کی طلبی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک بار پھر تنازع نے جنم لے لیا۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران یہ چوتھا موقع ہے جب کابل نے ملک میں 17 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات سے متعلق بیانات پر پاکستانی سفارت کار سے وضاحت طلب کی ہے۔
مارچ کے آخر میں افغانستان نےعمران خان کی اس تجویز کے بعد اسلام آباد سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا کہ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام سے امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں پیشرفت سے متعلق مدد مل سکتی ہے۔
تاہم پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم کے بیان کی وضاحت کے چند روز بعد ہی افغان سفیر واپس اسلام آباد چلے گئے تھے۔
جمعہ کوپاکستان کے وزیراعظم نے جمرود میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران ایک بار پھر اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے افغانستان میں انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کا کہا تو مجھ پر تنقید کی گئی ہم نے بھائیوں کی طرح مشورہ دیا اگر اسے نہیں ماننا تو نہیں مانیں لیکن یہ کوئی مداخلت نہیں ہے۔'
واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان امن مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن طالبان، افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں اور حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کے عہدے کی مدت مئی میں مکمل ہو رہی ہے، تاہم صدارتی انتخابات کی تاریخ دو بار ملتوی کی جا چکی ہے اور اب انتخاب 28 ستمبر کو شیڈول ہیں۔