غزہ کے میزائل، ڈیل آف سینچری کا جواب + مقالہ
مشہور عربی اخبار رای الیوم کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل پر فائر کئے جانے والے میزائل، دو اہم باتوں کا جواب ہیں ۔
رای الیوم کے چیف ایڈیٹر عبد الباری عطوان نے غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے حالیہ حملوں کے بارے میں اپنے مقالے میں لکھا کہ غزہ پٹی، فلسطین کے تاریخی علاقے کا دو فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود اس علاقے کے لوگ بڑی شجاعت کے ساتھ اکیلے کی چالیس کروڑ عربوں، ڈیڑھ عرب مسلمانوں اور ان کے مقدس مقامات کی حفاظت کر رہے ہیں، انہیں شکست دے رہے ہیں اور انہیں کسی سے بھی تعریف و تمجید کی امید نہیں ہے۔
محاصرے میں گھرے غزہ پٹی کی جانب سے فائر کئے جانے والے میزائل جو اسرائیل کی فوجی گاڑیوں اور ان میں بیٹھے ہوئے فوجیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، دو باتوں کا جواب ہیں، ایک ڈیل آف دی سینچری نامی سازش کا، جس کے ذریعے نیل سے فرات تک گریٹر اسرائیل بنائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسرے یہ ان عرب حکام کے لئے بھی جواب ہیں جو صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نتن یاہو سے سازشی گفتگو کر رہے ہيں اور انہیں اپنا رہنما اور حامی قبول کرتے ہیں ۔
یہ بات اہم نہیں ہے کہ کس نے اس جنگ کی آگ بھڑکائی ہے بلکہ اہم اور نیا موضوع یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم اس پر فخر کر رہی ہے اور نہوں نے اسرائیل کے تحریک آمیز اقدامات اور غزہ پٹی کے مظاہرین کی شہادت پر شدید رد عمل ظاہرکیا ۔
انہوں نے اسرائیل کی سرحد پر فوجیوں پر فائرنگ کی اور اس علاقے میں رہنے والے تقریبا سبھی فلسطینی اس بات کو درک کر چکے ہیں کہ اسرائیل، طاقت کے علاوہ اور کوئی بھی زبان نہیں سمجھتا ۔
حالیہ غزہ کی جنگ میں فلسطینوں کی اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور اگر اسرائیل نے پھر حملہ کرنے کی کوشش کی تو ان کامیابیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ابتدائی طور پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کو خلاصے میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
اس جنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی دفاعی طاقت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کار ایک ایسے فریق میں تبدیل ہو چکا ہے جو اپنے پروگرامز اور شرطوں کو قبول کرواتا ہے اور تصادم کے قوانین کو معین کرتا ہے۔
دوسری کامیابی یہ ہے کہ لاکھوں اسرائیلی اپنی جان بچانے کے لئے جنوب سے شمال کی جانب فرار کر گئے ہیں اور وہ پوری طرح سے خوفزدہ اور دہشت کا شکار ہیں ۔ اگر فلسطینیوں کے میزائل تل ابیب تک پہنچنے لگیں تو یہ تعداد بڑھتی جائے گی ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسرائیل میں دو جشن منائے جانے والے ہیں، ایک تل ابیب میں منعقد ہونے والے یورو ویژن کے مقابلے جس کے عربوں ناظر ہیں اور دوسرے صیہونی حکومت کی تشکیل کی سالگرہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جنگ دو ہفتے تک جاری رہتی تو یہ دونوں جشن معطل کر دیئے جاتے ہیں اور دنیا میں اسرائیل کا غاصب، اس کا فاشزم اور نا امنی پھیلانے والا چہرہ زیادہ واضح ہوکر سامنے آ جاتا ہے۔
اس جنگ کی چوتھی کامیابی یہ رہی ہے کہ خلیج فارس میں ساحلی عرب ممالک کے سامنے جو صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کر چکے ہیں یا بنانے کی کوشش کر رہے یں، اپنے شہریوں کی جانب سے سختیاں پیدا ہو گئی ہیں ۔ فلسطینی مزاحمتی گروں کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی کمزوری عیاں ہونے کے بعد ان پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ نتن یاہو پر قربان اور کے عرب چاپلوس رہنماوں نے اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت پر انہیں تعزیتی پیغام نہیں بھیجا ۔ بہر حال غزہ پٹی کے عوام اور مزاحمت کاروں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے دلوں میں امید کی کی شمع جلائے ہوئے ہیں اور کچھ وقت بعد مزاحمت کے معجزوں سے ہمیں حیران کر دیتے ہیں ۔
شکریہ
رای الیوم