ڈیل آف سینچری اور مسئلہ فلسطین کے خاتمے کی سازش (تیسرا حصہ)
اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیل آف سینچری نام کا جو معاہدہ کیا ہے اس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ جو فلسطینی ملک ہوگا اس کے پاس نہ کوئی فوج ہوگی اور نہ بھاری ہتھیار ہوں گے ۔
اسی طرح ڈیل آف سینچری کے مطابق جو فلسطینی پناہ گزین کی زندگی بسر کر رہے ہیں انہیں وطن واپسی کا حق نہیں ہوگا اور وہ جن ممالک میں ہیں وہی رہ جائیں تاکہ اس طرح سے اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جا سکے ۔
اسی طرح ڈیل آف دی سینچری کے مطابق تمام غیر قانونی کالونیاں پوری طرح سے اسرائیل کے قبضے میں رہیں گی حتی غرب اردون میں واقع مقبوضہ قصبے بھی اسرائیل کے ہی قبضے میں رہیں گے ۔
ڈیل آف سینچری کو اسرائیل کی سب سے بڑی خدمت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز اس وقت پیش کی گئی جب 33 اور 51 روزہ جنگ نے یہ ثابت کر دیا کہ اسرائیل کے بارے میں جو کہا جاتا تھا کہ وہ فاتح ہے، اس کا یہ طلسم ٹوٹ چکا ہے ۔
اسی طرح ڈیل آف سینچری کو ٹرمپ انتظامیہ نے ایسی حالت میں پیش کیا ہے کہ جب شام اور عراق میں دہشت گرد گروہوں سے نجات پانے کے بعد مزاحمتی گروہ پھر سے مضبوط ہو رہے ہیں ۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ صیہونی حکومت نے بارہا اعلان کیا ہے کہ اب وہ دوبارہ 33 اور 51 روزہ جنگ کی طرح مزاحمتی گروہوں کے خلاف دوسری جنگ نہیں کر سکتی ۔
اس طرح کے حالات میں فلسطین میں دو ملکوں کی تشکیل کی تجویز کے عملی جامہ پہننے سے مزاحمتی گروہوں کی بڑھتی طاقت کے مقابلے میں اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی فلسطین- اسرائیل تنازع کے حل کے لئے امریکا کے جو منصوبے ناکام ہوئے ہیں ان کا جبران بھی کیا جا سکتا ہے ۔