بحرین کانفرنس اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی برقراری کی کوشش
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ نے بحرین کانفرنس کی مذمت کرتے ہوئے اسے صیہونی حکومت کے ساتھ بعض عرب ملکوں کے تعلقات کی برقراری کا ایک اقدام قراردیا ہے۔
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے غزہ میں ایک پریس کانفرنس میں بحرین اقتصادی کانفرنس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہے کسی ایک عرب اور اسلامی ملک میں اس طرح کی کانفرنس ہو۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام بحرین کانفرنس میں کئے جانے والے فیصلوں پرعمل درآمد نہیں ہونے دیں گے-
حماس کے سربراہ نے بحرین اقتصادی کانفرنس کو فلسطینی امنگوں کو نابود کرنے کے لئے امریکا اور اسرائیل کی کوششوں کا حصہ قراردیا اور بحرین سے کہا کہ وہ اس کانفرنس کی میزبانی سے انکار کردے۔
تنظیم آزادی فلسطین کے سکریٹری صائب عریقات نے بھی کہا ہے کہ بحرین اقتصادی کانفرنس کے تعلق سے امریکا کی پالیسی ہرگز کامیاب نہیں ہوگی۔
صائب عریقات کا کہنا تھا کہ فلسطین کے بارے میں بحرین کی اقتصادی کانفرنس صلح کے عوض زمین کے فارمولے کی جگہ صلح کے عوض پیسے کے فارمولے کو نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے سینچری ڈیل منصوبے کا مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں اور غیرقانونی بستیوں کو رونق بخشنا ہے۔
صائب عریقات کا کہنا تھا کہ امریکا نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے جیسے اپنے اقدامات کےذریعے غیر قانونی صیہونی بستیوں کوجواز اور ایک آزاد فلسطینی مملکت کے قیام کے حل کو سب و تاژ کرنے جیسے سینچری ڈیل کی سیاسی شقوں پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔
اسرائیلی اور صیہونی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والی عالمی تحریک بی ڈی ایس نے بھی کہا ہے کہ بحرین اقتصادی کانفرنس کا مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے بہانے اسرائیل سے عرب ملکوں کے تعلقات کی برقراری ہے۔
بی ڈی ایس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کی کانفرنسوں سے امت مسلمہ کے سب سے اہم مسئلے یعنی مسئلہ فلسطین کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔
بحرین کانفرنس جسے امریکا کے ناپاک سینچری ڈیل پر عمل درآمد کے پہلے قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے منامہ میں پچیس اور چھبیس جون کو ہوگی۔ بہت سے ملکوں منجملہ لبنان، عراق اور فسطینی انتظامیہ نے اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔