شامی کرد سعودی عرب میں کیا کر رہے ہیں؟ سعودی عرب اب شام میں کیا چاہتا ہے؟
شامی کردوں کا ایک وفد سعودی عرب گیا ہے اور یہ سفر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے دورہ قطر کے بعد انجام پایا ہے۔ شامی کردوں کی یہ ٹیم، شام سے عراقی کردستان پہنچی جہاں سے وہ سعودی عرب کے لئے روانہ ہوگی اور وہاں علاقے کے حالات اور ایران پر سعودی حکام سے گفتگو کرے گی ۔
کچھ ذرائع نے بتایا ہے کہ کردوں کا یہ وفد، عراقی کردستان سے اردن جائے گا اور پھر وہاں سے سعودی عرب جائے گا تاہم ابھی تک یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ یہ لوگ اردن میں بھی ملاقات کریں گے یا نہیں؟ علاقے کے جو حالات ہیں ان کے تحت یہ سفر کافی اہم ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب نے 2018 سے شام کے کردوں کی حمایت کھل کر شروع کر دی ہے۔
سعودی حکومت نے اگست 2018 میں شام کے کرد چھاپہ ماروں کو 100 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا۔ خلیج فارس کے امور کے سعودی وزیر سامر السبہان نے بھی کچھ مہینے پہلے امریکی نائب وزیر خارجہ رابن اور بحرین میں امریکا کے سابق سفیر ولیم روباک کے ساتھ مشرقی شام کے دیر الزور صوبے کا سفر کیا تھا اور وہاں کرد کمانڈروں اور عرب قبائل کے عمائدین سے ملاقات کی تھی ۔
اس ملاقات میں سعودی وزیر سامر السبہان نے شامی قبائیلی عمائدین سے کہا کہ اگر وہ کردوں سے جنگ نہ کریں اور قطر و ترکی سے تعلقات منقطع کر لیں تو سعودی عرب روزگار پیدا کرکے، جنگ سے تباہ ہونے والے روستائی علاقوں کی تعمیر نو اور امدادی مدد کرکے ان کا ساتھ دے گا۔
در اصل شام میں سعودی عرب سے متعلق بہت سے مسلح گروہ یا تباہ ہو چکے ہیں یا اب ان کے پاس طاقت ہی نہیں رہ گئی ہے، اسی لئے ریاض، شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں نئے اتحادیوں کی تلاش میں مصروف ہے۔ در اصل بات یہ ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرکے شام پر سات برس تک جو جنگ مسلط کی تھی اس کا اب سعودی کو کوئی فائدہ نہيں مل پایا ہے اور بہت سے ممالک شام کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں، حتی سعودی عرب کی ہدایت کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی بنانے والے بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی شام سے سفارتی تعلقات بحال کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سعودی عرب کو یہ درد بھی ہے کہ اس نے اربوں ڈالر خرچ کئے تاہم اس کے ہاتھ کچھ نہيں لگا جبکہ ترکی نے شمالی شام میں پیر جما لیئے ہیں اور اس سے زیادہ دکھ کی بات سعودی عرب کے لئے یہ ہے کہ ایران نے پورے شام میں اپنا اثر و رسوخ بھی پیدا کر لیا ہے، یہی سبب ہے کہ شامی کردوں کے دورہ سعودی عرب میں "ایران کے خطرے" پر گفتگو کی بات خاص طور پر ہو رہی ہے۔ اس بنیاد پر شام میں ترکی کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھنا اور بحران شام سے " اپنا حصہ" محفوظ رکھنا، شامی کردوں کو سعودی عرب بلانے کے دو اہم مقاصد ہیں۔
* مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے *