کوالالامپور سربراہی سمٹ، سعودی عرب اور عرب قیادت کے لئے خطرے کی گھنٹی... (دوسرا حصہ)
اپنے ملک کے اقتصاد کو پیشرفت کے راستے پر ڈالنے والے ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد نے اپنے ملک میں ایک بھی اسرائیلی کو قدم نہیں رکھنے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا کہ جب پوری دنیا میں مسلمانوں کی سرکوبی ہو رہی ہے، مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے، اسلام سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے، اسلاموفوبیا پھیلایا جا رہا ہے اور سب پر واضح ہے کہ حالات خراب ہی ہوں گے۔
کوالالامپور اجلاس کے خلاف عربوں کو الیکٹرانک جنگ شروع کرنے اور اپنے ماضی کے قصیدے پڑھنے کے بجائے اپنی حالت زار پر غور و فکر کرنا چاہئے اور سب سے زیادہ یہ کام سعودی عرب کو کرنا چاہئے جہاں مقدس اسلامی مقامات ہیں۔
اگر سعودی عرب، عالم اسلام کی قیادت اپنے پاس باقی رکھنا چاہتا ہے تو اسے جنگ یمن، امریکا کے احکامات کی پیروی کرنے جیسی اپنی زیادہ تر پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا اور عالم اسلام کے محاذ میں کھڑے ہوکر فلسطین جیسے اسلامی مسائل کا دفاع کرنا چاہئے۔
جس ملک کو عالم اسلام کا رہبر اور قائد بننے کا شوق ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلامی علاقوں میں ایک طاقت ہو، ترقی میں، جمہوریت میں، انسانی حقوق کی پاسداری میں، اجتماعی انصاف میں، باہمی امن میں، ملک کے اقتدار اعلی میں اور بد عنوانی کے خلاف جنگ میں آگے ہو، مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کوشش کرے۔
کوالالامپور اجلاس سبھی عرب مسلم حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے اور خاص طور پر سعودی عرب کے لئے۔ شاید وہ نیند سے بیدار ہو جئے اور اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر لے کیونکہ آج او آئی سی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے تو کل ممکن ہے مقدس مقامات کی دیکھ بھال کے مطالبے بھی عالم اسلام میں اٹھ جائیں اور اس حوالے سے اس طرح کی باتیں ہو بھی رہی ہیں۔ کوالالامپور تو صرف شروعات ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہمارا انتباہ بہت سے افراد کو برا لگے کا لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ کہنا ہمارا فریضہ ہے، نتیجہ چاہئے جو بھی ہو۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان
* سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہيں ہے-