ترکی اور شام میں فوجی تصادم کے نتائج، کیا شام، ترکی کے لئے دلدل بن گیا؟ (دوسرا حصہ)
عرب دنیا کے مشہور تجزیہ نگار بحران شام کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ شمالی اور مشرقی شام میں امریکی فوجیوں کے خلاف محاذ کھولنا، شاید اس وقت حیرت کی بات لگے کیونکہ ابھی تو صوبہ ادلب کا محاذ گرم ہے اور وہاں شامی اور ترک فوج کے درمیان جنگ کے آغاز کا اندیشہ برقرار ہے لیکن شامی فوج کے قریبی لبنانی ذرائع کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک فوج کے درمیان جنگ کا خدشہ بہت زیادہ نہیں ہے کیونکہ روس نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ ادلب میں انتہا پسندوں کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا یعنی یہ علاقہ آزاد ہوکر رہے گا۔
شمالی اور مشرقی علاقوں میں امریکی فوج اپنی موجودگی میں اضافہ کر رہی ہے اور اس نے علاقے میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر پر اپنا قبضہ مضبوط کرکے کھلے عام لوٹ شروع کر دی ہے۔ امریکا ان ذخائر کو شامی حکومت کے قبضے میں نہیں جانے دینا چاہتا تا کہ وہ ملک کی تعمیر نو نہ کر سکے۔ اس لئےامریکا اس علاقے میں مستقل فوجی چھاونی بنانے کی کوشش میں بھی ہے۔
تقریبا دو مہینہ پہلے شامی صدر بشار اسد نے رشا ٹو ڈے سے گفتگو میں کہا تھا کہ امریکا کا مقابلہ شامی فوج سے نہیں بلکہ مسلح مزاحمت سے کیا جا سکتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس اسٹراٹیجی پرعمل کرنے کا وقت اب آ گیا ہے کیونکہ سرحد کے اس طرف عراق میں بھی امریکی فوجیوں کے خلاف اس طرح کی مزاحمت کا آغاز ہو چکا ہے۔
شامی فوج کے پاس دشمن کو تھکا مارنے کا طویل تجربہ ہے جو انہوں نے عراق میں امریکی فوجیوں کے خلاف اور لبنان و فلسطین میں اسرائیلی فوج کے خلاف برسوں تک جاری رہنے والی مزاحمت سے حاصل کیا ہے۔ ان تجربات میں حالیہ شامی بحران کے دوران نیا رخ پیدا ہو گیا ہے۔
بشکریہ
عبد الباری عطوان
دنیائےعرب کے مشہور تجزیہ نگار
*مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*