کون ہے وہ خاتون مسلم سائنسداں جو کورونا کے ہزاروں مریضوں کے لیے مسیحا بن گئي؟
فرانس میں رہنے والی مراکش کی اٹھائيس سالہ سارا بلالی نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر وہ کام کیا ہے کہ دنیا انگشت بدنداں ہے۔
سارا بلالی نے اپنی ٹیم کے ساتھ کورونا وائرس کی وبا کے دوران پوری انسانیت کی بڑی خدمت کی ہے اور یہ پتہ لگایا ہے کہ کس دوا کے ذریعے کووڈ-19 کا کامیابی سے علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس اٹھائیس سالہ خاتون سائنسداں نے ایک عالمی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ فرانس کے مشہور وائرولوجست ڈی ڈی اے راوولٹ کی ٹیم کا حصہ ہیں جو مارسیلز شہر میں ایک میڈیکل کالج میں تحقیقاتی کام کر رہی ہے۔ اسے یورپ کے انتہائي اہم میڈیکل سائنس ریسرچ سینٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔ ڈاکٹر سارا بلالی نے بتایا کہ انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی پہلی مائیکروسکوپک تصویر لی تھی۔
سارا بلالی اور پروفیسر راوولٹ کی ٹیم نے تحقیقات کے بعد یہ تجویز دی کہ کلوروکوین دوا سے کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئي کہ اس دوا کے سائڈ افیکٹس یا جانبی اثرات بھی نہیں ہیں۔ ڈاکٹر سارا کا کہنا ہے کہ ہم ہائیڈروکسی کلوروکوین اور ایزیتھرومائسن دو دیتے ہیں تو وائرس کے پھیلاؤ کا عمل رک جاتی ہے اور اس کے انفیکشن کی طاقت بھی کمزور پڑ جاتی ہے، اس کے علاوہ مریض کسی دوسرے شخص کو یہ وائرس منتقل بھی نہیں کرتا۔ مراکش کی اس خاتون سائنسداں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی کورونا وائرس کی ویکسین بننے میں وقت درکار ہے کیونکہ اس وائرس کے بارے میں ابھی بہت سی معلومات سامنے نہیں آئي ہیں۔
سارا بلالی مراکش کے شہر دار البیضاء کی رہنے والی ہیں اور انھیں اپنے شہر سے بہت پیار ہے۔ انھوں نے سن دو ہزار پندرہ میں اپنے آبائي شہر سے ماسٹرز کی ڈگری لی تھی اور سن دو ہزار انیس میں فرانس میں ڈاکٹریٹ کی۔