افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر اتفاق
افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات کے دو اہم رقیبوں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان وسیع البنیاد حکومت کے قیام سے متعلق سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ وسیع البنیاد حکومت کے سمجھوتے کے تحت عبداللہ عبداللہ ملک کی اعلی امن کونسل کی صدارت سنبھالیں گے اور ان کے پانچ معاونین مقرر کیے جائیں گے جن میں سے دو کا انتخاب ان کی جماعت کرے گی جبکہ باقی تین کا انتخاب صدر اشرف غنی کے مشورے سے کیا جائے گا۔
اس سمجھوتے کے مطابق عبداللہ عبداللہ ملک میں امن کے عمل کی قیادت کریں گے۔ وہ ملک کی اعلی امن کونسل کے اجلاسوں کی صدارت اور اس کونسل کے عہدیداروں اور دفتری کارکنوں کا انتخاب کریں گے اور امن سے متعلق وزارت خانے کے عہدیداروں کا تعین بھی ان کے اختیار میں ہوگا۔
علاوہ ازیں افغان اعلی امن کونسل، امن سے متعلق تمام فیصلوں کی توثیق اور منظوری بھی دے گی۔ یہ کونسل امن سے متعلق ملکی اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھی ذمہ دار ہوگی۔ امن کے بارے میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنا، اس کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنا، طالبان کے ساتھ امن کے عمل کو بہتر سے بہتر طریقے سے آگے بڑھانے اور اس کے بعد ملک کی تعمیر نو کے لیے عالمی امداد اور تعاون کا حصول بھی اعلی امن کونسل انجام دے گی۔
اس رپورٹ کے مطابق امن سے متعلق تمام اجلاسوں میں عبداللہ عبداللہ کو ملک کے دوسرے اہم ترین عہدیدار کی حیثیت سے پروٹوکول دیا جائے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سمجھوتے کے تحت ملک کے گیارہ وزارت خانوں کے قلمدانوں کی سپردگی کا اختیار بھی عبداللہ عبداللہ کو دیا گیا ہے۔
افغانستان کی قومی اسلامی تحریک کے سربراہ جنرل عبدالرشید دوستم کو صدر اشرف غنی کے حکم سے مارشل کا اعزاز دینا اور انہیں اعلی حکومتی کونسل اور اعلی سیکورٹی کونسل کا رکن بنانا بھی اس سمجھوتے میں شامل ہے۔
صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں میں سے کسی نے بھی تا حال اس سمجھوتے کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی تفصیلات کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ افغانستان کے دارالحکومت میں دو دھماکے ہوئے ہیں جس میں ایک شخص زخمی ہوا ہے۔ کابل پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز نے دھماکوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکے کابل کے چوتھے سیکورٹی زون میں نصب کی گئیں بارودی سرنگوں کے ذریعے کیے گئے۔
ایک اور اطلاع کے مطابق صوبہ غزنی کے شہر آب بند میں سڑک کے کنارے نصب بم کے ایک دھماکے میں دو بچے جاں بحق اور ایک بچہ زخمی ہو گیا۔
پچھلے چند روز کے دوران دارالحکومت کابل اور صوبہ ننگر ہار کے شہر کوزکنر سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے پے در پے دھماکوں میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔
افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے ملک میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے طالبان کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے افغانستان کی حکومت اور عوام اور حتی عالمی برداری کی جانب سے امن کے مطالبات اور حکومت افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات کے آغاز کی پیشکش کو بارہا مسترد کیا ہے۔