سعودی عرب نے ایرانی سائنسداں کے قتل کو عالم اسلام کا نقصان قرار دیا، کیا ہے بیان کا اصل مقصد؟
اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل نمائندے عبداللہ المعلمی نے اپنے ایک انٹرویو می ایران کے جوہری سائنسداں شہید فخری زادہ کے قتل کو عالم اسلام کا نقصان قرار دیا ہے۔
ایسی حالت میں جب سعودی عرب نے، خلیج فارس کے خطے کے دیگر ممالک کے برخلاف ایران کے ایٹمی سائنسداں کے قتل کی مذمت میں کوئي بیان جاری نہیں کیا ہے، اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے سفیر نے روس کے آر.ٹی. ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ان کی شہادت کو دنیائے اسلام کے لیے ایک نقصان بتایا ہے۔ اس معاملے میں سعودی عرب کے اکیلے پڑ جانے اور دہشت گردی کی حمایت میں اس کا نام اسرائیل کے ساتھ جڑ جانے کی وجہ سے ہی شاید عبداللہ معلمی نے ایران کے سینیر سائنسداں کے قتل پر اس طرح کا بیان دیا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب کا یہ اقدام اسرائیلی حکام اور میڈیا کے ذریعے بدنامی سے خود کو جلد از جلد بچانے کے مقصد کے تحت کیا گيا ہو۔ ایران کے سینئر جوہری سائنسداں کے قتل سے قبل اسرائیلی میڈیا نے صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے سعودی عرب کے دورے اور بن سلمان کے ساتھ ان کی ملاقات کی خبریں شائع کیں۔ یہ خبریں اتنے وسیع پیمانے پر سامنے آئيں کہ سعودی وزیر خارجہ کی جانب سے اس ملاقات کی تردید کے بعد بھی عالمی رائے عامہ نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب موجودہ صورتحال میں ایران سے دشمنی کم کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔
اگرچہ معلمی کا بیان ایران کے بارے میں سعودی عرب کے رویے میں تبدیلی کی مثبت علامت ہوسکتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تہران کے ساتھ ریاض کے تعلقات کے غیر دشمنانہ حد تک پہنچنے میں معنی خیز فاصلہ ہے اور اس فاصلے کو کم کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ سعودی عرب مغربی-اسرائیلی-عربی مثلث سے اپنے آپ کو دور کرنے کی کوشش کرے۔