فلسطینیوں کے درجنوں مکانات منہدم
غاصب صیہونی دہشتگردوں نے رواں ماہ کے آغاز سے اب تک غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے درجنوں مکانات کو منہدم کر دیا ہے۔
فلسطین انفارمیشن سینٹر کی رپورٹ کے مطابق انسان دوستانہ امور میں اقوام متحدہ کے ادارے اوچا کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونیوں نے پچھلے دو ہفتے کے دوران پچاس سے زائد فلسطینی مکانات کو منہدم کیا ہے۔
غیر قانونی تعمیرات اور الاٹمنٹ نہ ہونے کے بہانے کی جانے والے اس ظالمانہ انہدامی کارروائی کی وجہ سے درجنوں فلسطینی باشندے بے گھر ہوئے ہیں اور آٹھ سو اسّی دیگر کو بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، فلسطینی اداروں اور حتی بعض صیہونی تنظیموں نے کہا ہے کہ تل ابیب انتظامیہ جان بوجھ کر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کی تعمیر کے لیے اجازت نامے جاری کرنے سے گریز کرتی ہے اور پھر انہیں منہدم کر دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین نے بھی خبردار کیا ہے کہ دو سو فلسطینی خاندانوں کو بیت المقدس سے جبری انخلا کے خطرات کا سامنا ہے اور اسرائیل فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کر کے صیہونی کالونی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد تیئیس چونتیس کے تحت فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعیمر غیر قانونی ہے لیکن اس کے باوجود غاصب صیہونی حکومت فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے نئی صیہونی بستیاں تعمیر کرنے سے باز نہیں آ رہی ہے۔
غاصب صیہونی حکومت فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کے ذریعے علاقے میں آبادی کا تناسب اپنے حق میں تبدیل کرنے اور زیادہ سے زیادہ فلسطینی علاقوں کو ہتھیانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
درایں اثنا فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی برقراری کے اعلان کو فلسطینی کاز اور بیت المقدس کے ساتھ غداری قرار دیا ہے۔ فلسطینی تنظیموں کی جانب سے جاری ہونے والے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت بعض عرب حکومتوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے ذریعے اپنے تاریخی جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہے اور یہ اس کی بھول ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو سکے گی۔
فلسطینی تنظیموں کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے والی حکومتیں، مجاہد عرب قوموں کے ساتھ خیانت کا ارتکاب کر رہی ہیں جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔
بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ فلسطینی عوام اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے والی حکومتوں کے فیصلے کو ان ملکوں اور خاص طور سے مراکش کے عوام کا فیصلہ نہیں سمجھتے جو ہمیشہ فلسطینی کاز کے حامی رہے ہیں۔