طالبان اور القاعدہ مل کر کام کر رہے ہیں: افغان حکومت
افغانستان کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ اس ملک میں طالبان کے ساتھ پانچ سو سے زیادہ بیرونی دہشتگرد بھی دہشتگردانہ سرگرمیوں میں سرگرم عمل ہیں۔
افغان نیوز ایجنسی آوا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے کہا ہے کہ طالبان گروہ نے امریکہ طالبان معاہدے کے مطابق عمل نہیں کیا اور یہ گروہ ہمیشہ القاعدہ دہشتگرد گروہ کے ساتھ شریک رہتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ابھی حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں اور مجموعی طور پر دو سو سے پانچ سو تک بیرونی دہشتگرد، بدخشاں، غرنی، ہلمند، خوست، کنر، قندوز، لوگر، ننگرہار، نورستان، پکتیا اور زابل میں دہشتگردانہ سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
طالبان، القاعدہ کے ساتھ رابطے کو مسترد کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ القاعدہ نہ ہی افغانستان میں موجود ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔
دوحہ معاہدے میں طالبان نے القاعدہ اور دیگر دہشتگرد گروہوں سے اپنے رابطے ختم کرنے کا عہد کیا ہے اور اس کے مقابلے میں امریکی فوج نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مئی کے آخر تک افغانستان سے باہر نکل جائے گی تاہم ایسا نظر آتا ہے کہ دونوں فریق معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
داعش کی طرح القاعدہ دہشتگرد گروہ نے بھی امریکہ کی حمایت و مدد سے افغانستان، شام اور عراق کی مانند کئی ایشیائی ممالک میں بے شمار جرائم کا ارتکاب کیا جن کے نتیجے میں بہت سے بےگناہوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور ان ممالک کی بنیادی تنصیبات تباہ ہو کر رہ گئیں۔