مزاحمتی محاذ سے امریکی دشمنی، کیا مزاحمتی محاذ دفاعی پوزیشن میں آ گیا ہے؟
العالم ٹی وی چینل کی ویب سائٹ نے مشرقی شام میں امریکی حملے کا دلچسپ جائزہ پیش کیا ہے۔
امریکا نے جمعرات کی رات عراق کی سرحد سے لگے شامی علاقے البوکمال پر حملہ کیا تھا جس میں ایک شہید اور متعدد ديگر زخمی ہوگئے تھے لیکن شامی مخالفین کا کہنا ہے کہ امریکا کے اس حملے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ متعدد ديگر زخمی ہيں۔
امریکا کا دعوی ہے کہ یہ حملے، عراقی کردستان کے اربیل ایئرپورٹ اور بغداد کے گرین زون میں ہونے والے حملوں کے جواب میں ہیں۔
حالانکہ اربیل میں حملے کے ذمہ داروں کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے اور بغداد میں حالیہ دنوں میں امریکی سفارتخانے پر حملے کو ابھی بھی سیاسی مبصرین مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ حملے اس لئے کرائے گئے تاکہ عراق کے مزاحمتی گروہوں کے خلاف امریکا کے اقدامات کا زمینہ ہموار کیا جائے۔
امریکا کے صدر جو بائیڈن کے حکم سے مشرقی شام کے کچھ ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے۔
جمعرات کی رات کو کیا گیا حملہ، بائیڈن کے براہ راست حکم کے بعد ہوا ہے اور پینٹاگن نے جو بیان جاری کیا ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ حملہ در اصل ایران، حزب اللہ اور عراق و شام کے مزاحمتی محاذ کے لئے ایک طرح کا پیغام ہے جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ مزاحمتی محاذ پر حملے کے لئے سعودی عرب اور اسرائیل کے محاذ سے بائیڈن کے موقف کو متاثر کرنے کے لئے جو کوشش کی جا رہی ہے وہ کامیاب رہی ہے۔
ویسے بھی آجکل جو خبریں موصول ہو رہی ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ نتن یاہو اور شاہ سلمان کی ٹیلیفونی گفتگو کا اصل موضوع، ایران رہا ہے۔
ویسے ایک طرح سے مشرقی شام میں امریکا کے جمعرات کی رات کے حملے کو ایران کے ایٹمی معاملے کا دوسرا رخ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک طرف تو امریکا مذاکرات کی درخواست کر رہا ہے اور دوسری طرف سے ایران اور اس کے اتحادیوں نیز مزاحمتی محاذ پر حملے کرکے دباؤ بھی بنا رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی شام میں صیہونی حکومت کی جانب سے اس طرح کے متعدد حملے کئے گئے ہیں اور صیہونی حکومت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول بھی نہيں کی ہے لیکن جمعرات کی رات کے امریکی حملے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ایران اور مزاحمتی محاذ سے دشمنی نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور یہ بھی یقین ہے کہ یہ آخری حملہ نہیں ہوگا۔