شام کے بارے میں سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی کیوں؟
سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ خالد حمیدان کی سربراہی میں ایک سعودی وفد نے شام کا دورہ کرکے اس ملک کے صدر بشار اسد سے ملاقات کی ہے۔
دونوں فریق سبھی شعبوں میں اپنے تعلقات کی بحالی کے لئے پہلے قدم کے طور پر دمشق میں سعودی سفارتخانے کو پھرسے کھولنے پرمتفق ہوئے ہیں۔ سعودی وفد نے کہا کہ ریاض، عرب لیگ میں شام کی واپسی اور اسی طرح اس ليگ کے اگلے اجلاس میں اس کی موجودگی کا خیر مقدم کرتا ہے۔
شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کی سعودی عرب کی کوششوں کی وجہ کا جائزہ لینے کے لئے پہلے ایک عشرے میں شام کے بارے میں ریاض کی پالیسیوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔
گزشتہ ایک عشرے میں سعودی عرب، شامی حکومت کی سر سخت مخالف اور اس ملک میں موجود انتہا پسند گروہوں کے سب سے بڑے حامیوں میں رہا ہے۔ اس سے شامی حکومت کو گرانے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے، ریاض سمجھ رہا تھا کہ دنیائے عرب میں ہونے والی تبدیلی اور چار ڈکٹیٹروں کو ان کی حکومت سے بے دخل کئے جانے کے بعد علاقے میں مزاحمتی محاذ زیادہ مضبوط ہو جائے گا اور طاقت کا توازن، مزاحمتی محاذ کے حق میں نہ جانے دینے کے لئے شام کی حکومت کو گرا دینا چاہئے جو اس محاذ کے مرکز میں ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ ہی امریکا، متحدہ عرب امارات، ترکی، صیہونی حکومت اور کچھ یورپی ممالک نے بھی شام کی حکومت کے خلاف کام شروع کر دیا اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے شام کے بارے میں اپنا رخ کیوں بدل دیا ہے؟
سعودی عرب اور شامی حکومت کے مخالفین کو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرکے اور دمشق حکومت پر شدید دباؤ ڈال کر شام کی حکومت بدل سکتے ہیں لیکن اس ملک کے بحران کے 11 سال میں شام کے 90 فیصد علاقے شامی حکومت کے قبضے میں ہیں اور ملک کے اندر اور باہر اس کی سیاسی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ شام کی حکومت گرانے میں ناکامی کی وجہ سے شامی مخالف خیمے میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ شام مخالف اتحاد میں سعودی عرب کے ایک اہم اتحادی کے طور پر متحدہ عرب امارات کافی پہلے ہی اس سے الگ ہو چکا ہے اور اس نے دمشق سے تعلقات بحال کر لیئے ہیں اور دوسری طرح امریکا کی نئی حکومت کے رخ کو دیکھتے ہوئے بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اب مغربی ایشیا کا علاقہ، واشنگٹن کی ترجیحات میں شامل نہيں ہے۔ شام اور یمن میں سعودی عرب کی شکست فاش نے اسے یہ یقین دلا دیا ہے کہ ریاض پہلے کی بہ نسبت کافی کمزور ہو جائے اس سے پہلے وہ ایران اور شام کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کر لے۔