Aug ۱۵, ۲۰۲۱ ۱۸:۱۴ Asia/Tehran
  • طالبان، کابل میں داخل ہو گئے، امریکی حمایت اشرف غنی کے کام نہ آئی، عبوری حکومت کے زمزمے سنائی دینے لگے

افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کی پیشقدمی تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے اور ملک کے انتیس صوبوں اور دارالحکومت کابل کے بیشتر علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔

افغان وزارت داخلہ نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے کہ کابل شہر میں طالبان داخل ہوگئے ہیں اور ایوان صدر میں طالبان قیادت اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں جبکہ صدر اشرف غنی کسی بھی وقت کابل کو ترک کر سکتے ہیں-

اطلاعات ہیں کہ علی احمد جلالی آئندہ چھے مہینے کے لئے افغانستان میں عبوری حکومت کی کمان سنبھالیں گے۔ میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا کابل سے ٹیلی فون پر رابطے میں مشکلات پیش آ رہی ہے ہیں اور شہریوں میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند ہو گئے ہیں۔

اتوار کی صبح کابل کے بینکوں پر عوام کیا جم غفیر دیکھنے کو ملا ہے اور لوگ اپنی رقوم بینکوں سے نکال رہے تھے۔ اس وقت افغانستان کے چونتیس صوبوں میں سے انتیس پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہو چکا ہے اور افغان سیکورٹی فورس کے کنوائے مغربی کابل کی جانب جا رہے ہیں تاکہ مغربی سیکورٹی بیلٹ کو مضبوط کیا جا سکے۔

بعض غیر مصدقہ اطلاعات کےمطابق مغربی کابل کے شہر پغمان میں سرکاری فوج اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ بعض خبروں میں کہا گیا ہے کہ کابل کے پڑوس میں واقع صوبہ وردک بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ اسی دوران افغانستان کے ایوان صدر نے اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی اور افغانستان سیکورٹی فورس کابل کی سیکورٹی کو یقینی بنائیں گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل کے دور دراز علاقوں میں فائرنگ کے اکا دکا واقعات کے باوجود شہر میں مجموعی صورتحال مکمل طور پر حکومت اور سرکاری افواج کے کنٹرول میں ہے۔

طالبان کی پیشقدمی کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ پچھلے تین روز کے دوران افغانستان کے دس صوبوں پر ان کا قبضہ ہو گیا ہے جن میں غزنی، قندھار، بلخ، میدان وردک، پکتیا، پکتیکا اور بامیان جیسے اہم صوبے شامل ہیں۔

افغانستان کے مختلف علاقوں سے ملنے والی خبروں کے مطابق زیادہ تر صوبوں میں سرکاری افواج نے یا تو مزاحمت ہی نہیں کی ہے یا پھر بہت کم مزاحمت کے بعد طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے طالبان کے ترجمان نے بھی اس گروہ کی تیز رفتار پیشقدمی کو افغانستان میں اپنی عوامی مقبولیت قرار دیا ہے۔

اس وقت عالمی رائے عامہ کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ افغانستان پر قبضے اور حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد طالبان کا منصوبہ کیا ہوگا؟ اور بیس سال کی جنگ کے بعد حاصل ہونے والی اس کامیابی پر وہ کیا رویہ اختیار کریں گے؟

قابل ذکر ہے کہ افغانستان ایسے حالات میں طالبان کے ہاتھوں میں جا چکا ہے کہ امریکہ گزشتہ روز تک اشرف غنی حکومت کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کراتا رہا ہے اور اُس نے دارالحکومت کابل میں اپنے پانچ ہزار فوجی تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ٹیگس