افغانستان میں ناکامی کی جھینپ مٹانے کے لئے امریکہ لیپاپوتی میں مصروف
پیٹناگون کے چیف نے افغانستان کے امریکہ کے فرار کو تاریخی اور غیر معمولی کامیابی قرار دیتے ہوئے آئندہ ہفتے خلیج فارس کے ساحلی ملکوں کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
افغانستان سے امریکہ عجلت پسندانہ فرار اور امریکی فوجیوں کی بدنظمی کے بارے میں وسیع تر عالمی تنقیدوں کے باوجود اس ملک کے وزیر جنگ لوئیڈ آسٹن اپنی حکومت کی اسٹرٹیجک شکست کی لیپاپوتی میں مصروف ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر جنگ کا کہنا ہے کہ ہم نے افغانستان سے انخلا کا تاریخی آپریشن اور ملک کی تاریخ کا طویل ترین جنگی مشن مکمل کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے چھے ہزار امریکیوں اور ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد عام شہریوں کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ کابل سے باہر نکال لیا ہے۔
لوئیڈ آسٹن نے افغانستان سے امریکہ کی ذلت آمیز پسپائی کو تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے دعوی کیا کہ افغانستان سے انخلا نہ صرف امریکی فوج کے لیے بلکہ ہماری اتحادی افواج کے لیے بھی زبردست کامیابی ہے!
امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں بیس سال تک فوجی مشن میں ناکام ہونے کے بعد اس ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی کا نتیجہ، دہشت گردی میں اضافے، جنگ، تشدد، عدم استحکام، بدامنی اور لاکھوں بے گناہوں کے قتل عام کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے۔
دوسری جانب امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل مارک میلی نے اشارتا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کابل پر امریکہ کے حالیہ ڈرون حملے میں بچے بھی مارے گئے ہیں۔
امریکی وزیر جنگ لوئیڈ آسٹن کے ہمراہ پنٹاگون میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل مارک میلی کا کہنا تھا کہ ہم واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
دریں اثنا وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے طالبان کے قبضے سے قبل صدر جوبائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونی گفتگو کے انکشاف کے بارے میں کچھ کہنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
بائیڈن اور غنی کے درمیان آخری ٹیلی فونی مکالمے کے بارے میں ایک سوال کا جواب میں وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ وہ انتہائی پرائیوٹ سفارتی بات چیت کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتیں۔
کہا جا رہا ہے کہ فریقین نے اس ٹیلی فونی مکالمے میں فوجی کمک، سفارتی حکمت عملی، پیغام رسانی کی ٹیکنک کے بارے میں ایک دوسرے سے بات چیت کی تھی لیکن بائیڈن اور اشرف غنی افغانستان کے فوری سقوط کے خطرات اور طالبان کے اقتدار میں آجانے بارے میں بالکل بے خبر تھے اور انہوں نے خود کو اس صورتحال کے لیے آمادہ ہی نہیں کیا تھا۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ طالبان اپنے وعدوں پر عمل کریں گے اور انسانی حقوق نیز بین الاقوامی قوانین کا بھی احترام کریں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں فوجیں باقی رکھنے کے بارے میں اپنے پچھلے موقف سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے آٹھ جولائی دوہزار اکیس کو اپنے ایک بیان میں فوری اور حتی عجلت پسندانہ فوجی انخلا کا حکم دیا تھا۔
افغانستان سے امریکہ کے عجلت پسندانہ اور غیر ذمہ دارانہ انخلا نے نہ صرف حکومت امریکہ کو ہلاک کر رکھ دیا بلکہ دنیا کو ایک اور سانحے سے دوچار کر دیا ہے۔