افغان مہاجرین کے معاملے پر یورپی ممالک کی بے رخی
ستائیس یورپی ملکوں کے سربراہوں نے بریسلز میں ہونے وا لے اجلاس کے دوران بحران افغانستان میں اپنے کردار کو مد نظر رکھے بغیر یورپ کی بیرونی سرحدوں کو کنٹرول کرنے پر زور دیا ہے۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں دعوی کیا گیا ہے کہ یورپی یونین، کسی بھی تیسرے ملک کو یہ اجازت نہیں دے گی کہ وہ مہاجرین کے معاملے کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرے۔
بیان میں ترکی، اردن اور مصر میں قائم پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم شامی مہاجرین کے لیے مالی امداد کی فراہمی کی پیشکش کی گئی لیکن افغان مہاجرین کا نام کہیں بھی نہیں لیا گیا۔ یورپی یونین نے افغان مہاجرین کے بارے میں ایسی پالیسی اپنا رکھی ہے اور وہ خطے کے ملکوں کو مالی امداد دے کر اپنی سرحدوں کو مہاجرین کے سیلاب سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکی فوج کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کابل کے سقوط کے بعد ترپن ہزار افغان مہاجرین کو امریکہ منتقل کیا گیا ہے جنہیں آٹھ فوجی چھاؤنیوں میں رکھا جا رہا ہے۔ ہزاروں دیگر افغان مہاجرین، جرمنی، قطر، متحدہ عرب امارات، البانیہ، اور یوگینڈا کے پناہ گزین کیمپوں میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
بہرحال اسلامی جمہوریہ ایران پچھلے چالیس برس سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے اور انہیں تعلیم، صحت، روزگار اور سماجی خدمات کے ساتھ سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ ایران، سخت سے سخت ترین حالات اور امریکی پابندیوں کے باوجود بھی ہمیشہ افغان عوام کے ساتھ ساتھ کھڑا رہا ہے۔