داعش کے خونخوار اسکواڈ کے بارے میں کیا آپ جانتے ہیں؟
افغانستان کے مشرق میں جلال آباد شہر کے مضافات میں سڑکوں پر لاشیں پڑی نظر آتی ہیں، کچھ کو گولیاں ماری گئی ہیں، کسی کو پھانسی دی گئی ہے، بہت سے لوگوں کے سر قلم کیے گئے ہیں۔
ان میں سے کئی لاشوں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) یا داعش کی افغانستان شاخ سے ہے۔
کسی نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، لیکن کچھ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے جواب میں طالبان خاموشی سے دہشت گرد گروہ سے لڑ رہے ہیں۔
مقامی سطح پر جسے "داعش" کہا جاتا ہے، اس کے جنگجو چھپ کر حملہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اسلامک اسٹیٹ طالبان پر "غدار" ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں، طالبان، داعش پر گمراہ اور انتہا پسند ہونے کا الزام لگاتا ہے۔
دریں اثناء شام -عراق سرحد کے قریب بنائے گئے الہول کیمپ سے اطلاعات آرہی ہیں کہ وہاں دہشت گرد داعش کے حامیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ پہلی خلیج فارس جنگ کے دوران بنائے گئے اس کیمپ میں دسیوں ہزار داعشی دہشت گرد اور ان کے حامی رہتے ہیں۔ ان میں یورپی ممالک کے شہری سے لے کر 57 ممالک کے شہری شامل ہیں۔
حال ہی میں اس کیمپ کے اندر سے درجنوں لاشیں ملی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم کے حامیوں کی لاشیں ہیں جو تنظیم چھوڑنے کا سوچ رہے تھے۔
اس کیمپ میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد ہے جو داعشی دہشت گردوں کے رشتہ دار ہیں۔ یہ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں یا جیلوں میں ہیں۔
الہول کیمپ کے حالات انتہائی سنگین بتائے جاتے ہیں، جہاں داعش سے وابستہ خواتین ان لوگوں کو خوفناک طریقے سے قتل کررہی ہیں جو داعش کے نظریے سے جدا ہونا چاہتے ہیں۔