ہرتزوگ کے دورے پر حماس اور جہاد اسلامی کا رد عمل، اربکان کی پیشینگوئی سچ ثابت ہوئی
حماس اور جہاد اسلامی نے صیہونی صدر کے ترکی کے دورے پر رد عمل دکھاتے ہوئے صیہونیوں سے کسی بھی طرح کے تعلقات کی مخالفت کی۔
صیہونی صدر اسحاق ہرتزوگ بدھ کے روز ترکی کے دارالحکومت انقرہ پہونچے۔ یہ کسی صیہونی صدر کا گزشتہ 18 برسوں میں ترکی کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ آخری بار سن 2003 میں صیہونی صدر نے ترکی کا باضابطہ دورہ کیا تھا۔
المسیرہ کے مطابق، فلسطین کی اسلامی استقامتی تنظیم حماس نے ایک بیان میں کہا کہ ہم ایک بار پھر اپنے اس اصولی موقف پر تاکید کرتے ہیں کہ ہم صیہونی دشمن سے کسی بھی طرح کے روابط کے خلاف ہیں۔
حماس نے غاصب صیہونی حکومت سے کسی بھی طرح کے تعلقات کی مخالفت کرتے ہوئے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے خاتمے اور اس سرزمین کے حقوق کے دوبارہ حاصل کرنے کے لئے فلسطینی قوم کی زیادہ سے زیادہ حمات کی اپیل کی۔
دوسری طرف اسلامی جہاد تنظیم نے بھی ایک بیان میں، ترک صدر کے صیہونی صدر کا استقبال کرنے کے اقدام کی مذمت کی اور اسے فلسطینی کاز کے خلاف دشمن کا ساتھ دینے سے تعبیر کیا۔
جہاد اسلامی نے کہا کہ صیہونی دشمن سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش قدس اور فلسطین کی اہانت کے مترادف ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت کے عہدیدار صیہونی حکومت کے قبضے کے خلاف فلسطینی قوم کی حمایت کا بارہا دعویٰ کرچکے ہیں، لیکن یہ حمایت صرف زبانی حد تک رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ترکی کے سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان صیہونی حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات کے خلاف تھے۔ 1992 میں وزیر اعظم بننے سے قبل انہوں نے ایک تقریر میں اسرائیل کے بارے میں کہا تھا: ”حکومت اسرائیلیوں کے تعلق سے ہماری قوم کو بیوقوف نہ بنائے، ان سے ذرہ برابر بھی غفلت نہیں برتنی چاہیئے، اس بات میں شک نہ کریں کہ اسرائیل صرف فلسطینیوں کا دشمن نہیں بلکہ پورے آناتولی، ترکی اور عالم اسلام کے لئے خطرہ ہے۔“
اربکان کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے نزدیکی افراد سے سنہ 1992 میں بارہا کہا تھا کہ اگر ہم اسرائیل کے ڈھیٹ مورخین، نامہ نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی رائے کا جواب نہیں دیں گے تو وہ دن آئے گا جب وہ امریکہ کی مدد سے بیت المقدس کو صیہونیوں کے دارالحکومت کے طور پر پیش کریں گے۔