Mar ۱۳, ۲۰۲۲ ۲۱:۰۹ Asia/Tehran
  • فائل فوٹو
    فائل فوٹو

سعودی عرب میں اکیاسی عام شہری منجملہ اکتالیس شیعہ مسلمانوں کو سزائے موت دئے جانے پر سخت عالمی رد عمل سامنے آرہا ہے۔

سعودی عرب نے انسانی حقوق کی واضح پامالی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر دسیوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اطلاعات کے مطابق ایک دن کے اندر آل سعود حکومت نے اکیاسی افراد کو سزائے موت دے دی۔ گزشتہ روز آل سعود حکومت کی وزارت داخلہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اکیاسی افراد کو مختلف الزامات منجملہ دہشتگردی اور گمراہ کن عقائد و نظریات کا حامل ہونے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے۔ سعودی حکومت نے جن نوجوانوں کو سزائے موت دی ہے ان میں سے اکتالیس کا تعلق سعودی عرب کے شیعہ آبادی والے شہر قطیف سے ہے جبکہ سات کا تعلق یمن سے بتایا جاتا ہے ۔ ان تمام افراد کو مختلف بہانوں سے گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔

آل سعود کے اس متعصبانہ اور سفاکانہ اقدام پر سخت عالمی رد عمل سامنے آرہا ہے۔ جزیرت العرب میں آل سعود مخالف ایک انجمن نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آل سعود نے اُن افراد کا قتل عام کیا جنہوں اپنے عقیدے کے اظہار کے لئے آزادی اظہار رائے کے اپنے جائز اور مسلمہ حق کا استعمال کیا۔ بیان میں آیا ہے کہ محمد بن سلمان ایک قاتل ہے جو بے گناہوں کا خون بہانے میں لذت محسوس کرتا ہے۔

عراق کی استقامتی تنظیموں نے بھی آل سعود کے سفاکانہ اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ کتائب سید الشہدا کے سیکریٹری جنرل ابوالاء الولائی نے کہا کہ آل سعودی حکومت نے یوکرین جنگ میں مگن دنیا کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکیاسی افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آل سعود نے اکتالیس شیعوں کا سر قلم کر کے اپنی فرقہ پرستانہ سوچ کو عیاں کر دیا ہے۔

تحریک النجبا کے ترجمان نصر الشمری نے بھی آل سعودی کے اس اقدام کو انسانی حقوق کی کھلی خلافورزی قرار دیا اور کہا کہ سعودی حکومت شیعوں پر دہشتگردی کا الزام عائد کر کے دنیا کو گمراہ کر رہی ہے۔ تحریک عصائب اہل حق کے سربراہ قیس الخزعلی نے بھی سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آل سعود کا خاندان اسلام کے بنیادی ترین اصولوں کی پامالی پر مُصِر ہے۔

عراق کی جماعت حزب الدعوہ نے بھی اپنے بیان میں اعلان کیا ہے کہ ان افراد کو سزائے موت دینے کا مقصد سعودی شہریوں پر خوف و وحشت طاری کرنا ہے اور اس سے سعودی عرب میں اصلاحات اور کھلا ماحول بنانے کا دعوی جھوٹا ثابت ہوگیا۔

اُدھر یمن کے اعلیٰ عہدے داروں نے بھی آل سعودی کے بہیمانہ اور سفاکانہ عمل کو انسانی حقوق کی کھلی خلافورزی قرار دیتے ہوئے اسکی سخت مذمت کی۔ یمن میں انسانی حقوق کے قائم مقام وزیر علی الدیلمی نے مذہبی منافرت پر مبنی آل سعود کے اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم دسیوں مظلوم نوجوانوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہیں۔ آل سعودی حکومت عالمی برادری کی خاموشی کی بنا پر اجتماعی قتل عام کی عادی ہو چکی ہے۔

قیدیوں سے متعلق یمن کی قومی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ سعودی حکومت نے جن دسیوں افراد کو پھانسی دی ہے ان میں دو یمنی قیدی بھی تھے جنہیں ظلم و دشمنی کی بنا پر سزائے موت دی گئی ہے۔ یمن کی قیدیوں سے متعلق کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ دویمنی قیدیوں کو قتل کرنے کا سعودی حکومت کا اقدام تمام آئین و قوانین کے منافی ہے اور اسے اس کے انجام کا انتظار کرنا چاہئے۔

یمن کے علماء کی تنظیم نے بھی دہشتگردی کا الزام لگا کر دسیوں افراد کو قتل کرنے پر سعودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا ہے کہ کئی بےگناہ مسلمانوں اور یمنی شہریوں کا قتل دین اسلام اور منصفانہ عدالتی احکامات کے منافی ہے اور یہ جرائم سیاسی وجوہات اور فرقہ واریت پھیلانے کے لئے انجام دیئے گئے ہیں۔

یمن کی حزب حق پارٹی نے سعودی حکومت کو امریکہ و برطانیہ کے انٹیلیجنس اداروں کے منصوبوں پرعمل پیرا قرار دیا اور کہا کہ اس کا مقصد فرقہ واریت اورمذہبی فتنہ انگیزی ہے۔

یہ بھی دیکھیئے:

سعودی عرب، 41 شیعہ مسلمانوں سمیت 81 افراد کو سزائے موت

قبیلۂ آل سعود نے ۳۷ شیعوں کا سر قلم کر دیا ۔ ویڈیو

یمن کے وزیر اطلاعات ضیف اللہ شامی نے بھی کہا کہ اکیاسی عام شہریوں کا قتل عام جس میں القطیف علاقے کے اکتالیس (شعیہ نوجوان) اور سات یمنی شامل ہیں، ایک بڑا جرم ہے جسے امریکی رضامندی کے بغیر انجام دینا اسکے لئے ناممکن تھا۔

بحرین میں بھی عوام آل سعود کے مجرمانہ اور جابرانہ اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے اکیاسی عام شہریوں کے قتل پر آل سعودی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ سیاسی تنظیم الوفاق نے ٹویٹر ہینڈل پر آل سعود کے انتہاپسندانہ اقدامات کے خلاف عوامی مظاہروں کی خبر دی ہے۔

بحرین کی جمعیت عمل اسلامی نے بھی اسّی سے زیادہ شہریوں کو سزائے موت دینے کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایسا جرم مغرب کی حمایت سے انجام دیا ہے۔ جمعیت عمل اسلامی بحرین نے سوشل میڈیا پر اتوار کو اپنے بیان میں اعلان کیا کہ اگر مغربی ممالک سعودی ولی عہد اور اس کے ظالمانہ جرائم کی حمایت نہ کرتے تو وہ یہ وحشیانہ پالیسی اختیار کرنے کی ہمت نہ کرتا۔

قابل ذکر ہے سرزمین حجاز پر مسلط قبیلۂ آل سعود ملک کے مشرقی علاقوں منجملہ العوامیہ اور القطیف میں اپنے خلاف اٹھنے والی صدائے احتجاج کو تمام تر بے رحمی کے ساتھ کچلنے میں مصروف ہے جس کے تحت وہ اب تک دہشتگردی یا منحرف عقائد کے حامل ہونے جیسے بے بنیاد الزامات کے تحت سیکڑوں شیعہ مسلمانوں منجملہ علماء کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔

آل سعودی حکومت نے دوہزار سولہ میں سعودی عرب کے معروف شیعہ عالم دین آیت اللہ شیخ باقر النمر کو اپنے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے جرم میں سزائے موت سنا کر شہید کر دیا تھا جس کے بعد عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا، یہاں تک کہ تہران و ریاض تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔

ٹیگس