یمن میں سعودی اور امارتی ملیشیاؤں میں قبضے کی جنگ تیز
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے وابستہ ملیشیاؤں کے درمیان کئی روز سے جاری خونی جھڑپوں کے بعد، یمن کے صوبے شبوہ کے شہر عتق کا کنٹرول ساوتھ ٹرانزیشن کونسل کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔
القدس العربی کے مطابق ، مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ جنوب مشرقی یمن کے تیل سے مالا مال صوبے شبوہ کے صدر مقام عتق پر متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ ساوتھ ٹرانزیشن کونسل کی ملیشیا نے قبضہ کرلیا ہے۔ یہ پیشرفت اس وقت ہوئی جب سعودی عرب سے وابستہ اصلاح پارٹی کے مسلح جتھوں نےعتق شہر پر اپنا قبضہ تقریبا مکمل کرلیا تھا لیکن متحدہ عرب امارات کے ڈرون طیاروں نے آپریشن کرکے صورتحال کو بدل دیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے حملہ آور ڈرون طیاروں نے علاقے کی انسانی صورتحال اور آبادیوں کو خاطر میں لائے بغیرمنگل اور بدھ کو مسلسل دو روز رات کے وقت تابڑ توڑ حملے کئے اور بمباری کی اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ ملیشیا کو پسپائی پر مجبور کردیا۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عتق کا کنٹرول اس وقت پوری طرح سے علیحدگی پسند ساوتھ ٹرانزیشن کونسل کی ملیشیا کے ہاتھ میں ہے، جسے متحدہ عرب امارات کی بھرپور مالی اور فوجی حمایت حاصل ہے۔ اکثر مبصرین، جنوبی یمن میں جاری جھڑپوں کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان طاقت کی جنگ قرار دے رہے ہیں ۔ ان جھڑپوں میں الجھے فریقوں میں سے ایک پوری طرح سے سعودی عرب کے ساتھ جبکہ دوسرا متحدہ عرب امارات سے وابستہ ہے اور ان کے احکامات کی بے چون و چرا تعمیل کر رہا ہے۔
صوبہ مآرب کے بعد شبوہ یمن کا تیل سے مالا مال دوسرا بڑا صوبہ شمار ہوتا ہے، کھلے سمندر تک رسائی اور تیل کی جیٹیوں کی وجہ سے جنوبی یمن کی جھڑپوں میں الجھے دونوں فریق اس صوبے کے تیل کے ذخائر پر اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہیں ۔ اس سے پہلے جنوبی یمن کے مزاحمتی محاذ کے ایک عہدیدار عادل الحسنی نے کہا تھا کہ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب دونوں ہی صوبہ شبوہ پر قبضے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
جنوبی یمن میں سعودی اور اماراتی ملیشیاؤں کےدرمیان یہ جھڑپیں ایسے وقت میں جاری ہیں جب گزشتہ اپریل سے یمن میں جنگ بندی نافذ ہے۔ سعودیوں اور یمنیوں نے گزشتہ اپریل میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں دوماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور ایک ہفتہ پہلے جنگ بندی میں تیسری مرتبہ مزید دوماہ کی توسیع کردی گئی ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ جنگ بندی محض سعودیوں اور یمنیوں کے درمیان حملوں اور عسکری تنازعات میں کمی پر منتج ہوئی ہے جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان جنوبی یمن میں سیاسی تسلط جمانے کی جنگ تیز ہوگئی ہے جس نے سعودی اور اماراتی ملیشیاؤں کے درمیان سیاسی اور فوجی قبضے کے لیے جاری لڑائیوں میں مزید شدت پیدا کردی ہے۔
اگریہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جنگ بندی نے دراصل غاصبوں اور ان کے آلہ کاروں کو جنوبی یمن میں اپنے اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات کے حصول کا موقع فراہم کردیا ہے۔