سعودی عرب میں سزائے موت میں بے تحاشہ اضافہ
آل سعود حکومت، دنیا میں سزائے موت دینے والی حکومتوں میں سرفہرست ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں پچھلے دس برس کے دوران ایک ہزار ایک سو حکومت مخالفین کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔
سحرنیوز/عالم اسلام: مرات الجریزہ نامی ویب سائٹ کے مطابق، سعودی حکومت نے ہفتے کے روز مزید چار نوجوانوں: محمد علی الشقاق، منصور سمیر الحایک، مرزوق محمد ضیف آل فضل اور رعد محمد ضیف آل فضل کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے جس کے بعد رواں سال کے آغاز سے اب تک سعودی عرب میں جاری کیے جانے والے موت کی سزاؤں کی تعداد ایک سو بیس تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ چار نوجوانوں کے اضافے کے بعد سعودی عرب میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی تعداد تریسٹھ سے زائد ہوگئی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ رواں سال اکتوبر کی اکتیس تاریخ کو موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک ہزارویں سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔
یورپ میں قائم انسانی حقوق کے ایک عرب تنظیم کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت سزائے موت کے معاملے میں شفاف طریقے سے عمل نہیں کر رہی اور اہل خانہ کو ڈرا دھمکا کر انہیں ہر قسم کی قانونی اور شہری سرگرمیوں سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے جس کی وجہ سے سزائے موت کے قیدیوں کی اصل تعداد کا پتہ لگانا ممکن ہیں ہے۔
مذکورہ تنظیم کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں چارسو چھیانوے افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاچکا ہے جن میں سے انچاس افراد کو صرف اور صرف جج کی ذاتی رائے کی بنیاد پر سزائے موت دی گئی ہے۔
سعودی عرب میں مقدمات منصفانہ بنیادوں پر نہیں چلائے جاتے اور بہت سے قیدیوں کو مقدمات کے مختلف مراحل میں شکنجوں اور ایذارسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سلمان بن عبدالعزیز کے دور حکومت میں سزائے موت پانے والے ہر ایک ہزار افراد میں بارہ بچے شامل ہیں حالانکہ خود سعودی قوانین کے تحت بچپن میں جرم کا ارتکاب کرنے والے کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی۔
سعودی عرب میں سزائے موت کے احکامات پر عملدرآمد کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ، سعودی حکام سزائے موت پانے والوں کی لاشیں بھی ان کے ورثا کے حوالے نہیں کرتے اور کم سے کم ایک سو بتیس معاملات میں سزائے موت پانے والوں کے اہل خانہ کو ان کی تدفین سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
سعودی عرب میں بارہ مارچ دوہزار اکیس کو ، ایک دن میں اکیاسی افراد کے سرقلم کیے گئے تھے اور جن میں سے اکتالیس کا تعلق ملک کے شیعہ آبادی والے صوبے قطیف سے تھا۔
یمن کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں سزائے موت پانے میں والے مذکورہ اکیاسی افراد میں دو جنگی قیدیوں سمیت سات یمنی شہری تھے ۔
مذکورہ دلائل اور سعودی عرب میں دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعاون کے الزام میں موت کی سزاپانے والے افراد کے دستیاب کوائف کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس ملک میں سزائے موت پانے والوں کی بڑی تعداد آل سعود کے سیاسی اہداف کی بھینٹ چڑھی ہے جبکہ اس معاملے پر مغربی طاقتوں، عالمی اداروں اور حتی اقوام متحدہ کی جانب سے بھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔