Sep ۰۲, ۲۰۲۵ ۱۰:۲۹ Asia/Tehran
  • بحیرۂ احمر میں شکست کے بعد امریکہ کی نئی بحری جنگی حکمت عملی

انصاراللہ کی جنگی حکمتِ عملی نے امریکہ کو بحریہ کی کلاسیکی طاقت پر نظر ثانی اور ڈرون و ربوٹک ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری پر مجبور کر دیا۔

سحرنیوز/عالم اسلام: امریکہ، یمن کے خلاف بحیرۂ احمر میں ناکامیوں کے بعد، ایک نئی بحری حکمتِ عملی اپنانے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم اس حکمتِ عملی کی کامیابی پر بھی ابہام کے گہرے سائے ہیں۔

لبنانی روزنامہ الاخبار کے مطابق، بحیرۂ احمر میں ایک عالمی تجربہ گاہ میں بدل گیا ہے جہاں غیرمتوازن جنگی طریقے آزمایے جا رہے ہیں۔ یمنی فوج کے کم لاگت اور انتہائی مؤثر ڈرونز اور میزائلوں نے دنیا کی طاقتور اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جدید ترین افواج کو بھی مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔

یہ تجربہ 2023 کے آخر میں اس وقت سامنے آیا جب انصاراللہ نے امریکی، یورپی اور اسرائیلی اتحاد کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ مغربی ممالک نے اعتراف کیا کہ وہ ایک بالکل نئی جنگی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے رائج عسکری نظریات سے یکسر مختلف ہے۔ امریکی حکام نے بھی تسلیم کیا کہ سادہ اور سستی ٹیکنالوجی، بحری بیڑوں کو الجھا سکتی ہے اور ان پر بھاری مالی بوجھ ڈال سکتی ہے۔

اس حقیقت نے بڑی طاقتوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی فوجی حکمتِ عملیوں پر نظرثانی کریں۔ واشنگٹن کو اندازہ ہوا کہ ایئرکرافٹ کیریئرز اور بھاری بحری سازوسامان جیسے روایتی ہتھیار اب انصاراللہ جیسے گروہ کے سامنے موثر نہیں رہے۔ چین نے بھی اس تجربے سے سیکھا اور ڈرونز و آبی روبوٹس میں سرمایہ کاری کو امریکہ کی روایتی برتری کے خلاف سب سے مؤثر راستہ قرار دیا۔

اسی تناظر میں امریکی جریدہ Defense One نے رپورٹ دی کہ امریکی وزارت دفاع نے ایک نیا یونٹ تشکیل دیا ہے جس میں 12 ماہرین شامل ہیں جو ڈرون حملوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ یونٹ ریاست ورجینیا کے کوانٹیکو بیس پر قائم ہے۔ اس اقدام کو امریکہ کی بحیرۂ احمر میں ناکامیوں سے براہِ راست متعلق قرار دیا گیا ہے اور اس میں ریڈیو فریکوئنسی پر کام کرنے والے نئے طیاروں کے تجربات بھی شامل ہیں۔

الاخبار کا کہنا ہے کہ یمن کی حالیہ جنگ نے امریکہ کی بحری جنگی حکمتِ عملی میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کردی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک غیرمنظم لیکن ڈرونز اور تیز رفتار کشتیوں سے لیس قوت کس طرح کم خرچ میں روایتی طاقت کے توازن کو بگاڑ سکتی ہے۔ واشنگٹن اس نتیجے پر پہنچا کہ صرف مہنگے میزائلوں کا استعمال کافی نہیں بلکہ نئی ٹیکنالوجی کے امتزاج کی ضرورت ہے۔ اسی لیے امریکہ نے "Replicator" پروگرام کا اعلان کیا، جس کے تحت پینٹاگون کم لاگت والے ڈرونز اور روبوٹس کی بڑے پیمانے پر تیاری کر رہا ہے تاکہ بغیر پائلٹ ہتھیاروں کا استعمال تیز کیا جاسکے۔

اس منصوبے کے تحت امریکی وزارتِ دفاع نے 2023 کے آخر میں 500 ملین ڈالر مالیت کے بغیر پائلٹ طیاروں اور جہازوں، مختلف سائز کے ہتھیاروں اور ڈرون شکن نظاموں کی خریداری شروع کی۔ مزید 500 ملین ڈالر سال 2025 کے دفاعی بجٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد وہ خلا پُر کرنا ہے جو غیرمتوازن جنگوں میں امریکہ کے لیے واضح ہوگیا ہے۔

امریکی بحریہ مستقبل میں بڑی تعداد میں ایسے ڈرونز اور بارودی سرنگیں تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو نسبتاً کم قیمت پر بحری حملہ آوروں کو روکنے کے لیے استعمال ہوں گی۔

یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ آنے والے دنوں میں بین الاقوامی سمندروں میں مزید کشیدگی اور جھڑپیں دیکھنے کو ملیں گی۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ امریکہ اپنی نئی حکمتِ عملی کے ذریعے یمن کے ساتھ بحری محاذ پر کس حد تک کامیاب ہو پاتا ہے۔

ٹیگس