Oct ۱۸, ۲۰۱۵ ۱۴:۲۷ Asia/Tehran
  • میانمار؛ آنگ سان سوچی کا صوبہ راخین کا دورہ

میانمار میں اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی نے کہ جنھوں نے اب تک صوبہ راخین کے روہنگیائی مسلمانوں کی علانیہ حمایت سے گریز کیا ہے، اس صوبے کا دورہ کیا ہے۔

میانمار کے اس صوبے میں انتہا پسند بدھسٹوں نے ایک عرصے سے روہنگیا مسلمانوں پر تشدد اور وحشیانہ حملے شروع کر رکھے ہیں۔ اگرچہ روہنگیا کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت کو ووٹ دیں گے، لیکن سوچی نے اپنی پوزیشن خراب ہونے کے خوف سے انتہا پسند بدھسٹوں کے روہنگیائی مسلمانوں پر حملوں پر ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں آنگ سان سوچی کا صوبہ راخین کا دورہ ایک ایسے وقت میں انجام پا رہا ہے کہ جب اس صوبے میں مسلمانوں پر انتہا پسند بدھسٹوں کے حملے بدستور جاری ہیں۔ آنگ سان سوچی صوبہ راخین کے دورے سے کہ جو انتخابی مہم کے سلسلے میں انجام پا رہا ہے، یہ ظاہر کرنا چاہتی ہیں کہ میانمار کے حالات اور قومی اور نسلی مسئلے پر ان کی توجہ ہے۔

لیکن یہ بات کہ حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی اپنے دورہ راخین کے دوران اپنی توجہ کس فریق پر مرکوز کریں گی، بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ آنگ سان سوچی انتہا پسند بدھسٹوں کی توجہ حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ انھوں نے بدھسٹوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف ان کے جرائم پر خاموشی اختیار کی ہے اور درپردہ طور پر ان کی تائید کی ہے۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب سیاسی مبصرین کے خیال میں آنگ سان سوچی کو کہ جنھوں نے نوبل انعام بھی حاصل کر رکھا ہے، اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے اور ایک ایسی رہنما کے طور پر کہ جو عوام کی نمائندہ بن کر پارلیمنٹ میں جانا چاہتی ہیں، اپنی توجہ میانمار کے تمام شہریوں کے مسائل اور مشکلات پر مرکوز کرنی چاہیے۔ لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ آنگ سان سوچی کو اپنے موقف پر انتہا پسند بدھسٹوں کے ممکنہ اعتراض کے بارے میں تشویش ہے اور اسی بنا پر وہ احتیاط سے اور جانبدارانہ موقف اختیار کر رہی ہیں۔

انتہا پسند بدھسٹوں کے ایک ادارے ماباتا کا کہنا ہے کہ سوچی کی جماعت کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس بنا پر ایسا لگتا ہے کہ آنگ سان سوچی صوبہ راخین کا دورہ کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کریں گی کہ انتہا پسند بدھسٹوں کے اس ادارے کا موقف درست نہیں ہے اور یہ صرف ایک دعوی ہے۔

لیکن میانمار کے مسلمانوں کو کہ جن کے اس ملک کے پارلیمانی انتخابات میں امیدوار بننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، یہ توقع ہے کہ آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کہ جس طرح اس کے نام میں بھی ڈیموکریسی کا لفظ موجود ہے، جمہوری اصولوں کے مطابق میانمار کے تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوشش کریں گی۔ جبکہ اس جماعت کے ایک سینیئر لیڈر نے ستمبر کے مہینے میں اعتراف کیا تھا کہ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے انتہا پسند بدھسٹوں کو خوش کرنے کے لیے آئندہ انتخابات میں مسلمانوں کو امیدوار بنانے سے گریز کیا ہے۔

بہرحال سیاسی مبصرین کے خیال میں میانمار میں آٹھ نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات اس ملک کی حکومت اور ان افراد کے لیے ایک کڑا امتحان ہے کہ جو عوام کے حقوق کا دفاع کرنے کے لیے ان کے نمائندے کے طور پر پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ میانمار کے عوام کے شہری حقوق کا دفاع کرنے کے سلسلے میں آنگ سان سوچی کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔

اگر انھوں نے اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہ کیا تو بین الاقوامی حلقے یہ سمجھیں گے کہ شہری حقوق کا دفاع کرنے کے سلسلے میں انھوں نے جو بیانات دیے تھے وہ صرف نعرے اور دعوے تھے کہ جو انھوں نے ملکی صدارت کا عہدہ حاصل کرنے کے سلسلے میں عوام کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیے تھے۔