ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے کی سزا
پاکستان کےسابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے کی وجہ سے وزارت عظمی کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔
ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق صحبت پور پریس کلب کی نومنتخب کابینہ سے حلف لینے کے بعد منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بانی ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنے کے حوالے سے مجھ پر کافی دباو تھا لیکن میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کرنے اور نواب اکبر خان بگٹی کومارنے سے صاف انکار کردیا جس پر مجھے وزرات عظمی سے مستعفی ہونا پڑا جس پر مجھے دکھ نہیں ہے اس لئے کہ میں اپنے بزرگوں کا قتل نہیں کرسکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے دیتاتو آج میں زندہ نہ ہوتا ۔ انہوں نے دعوی کیا کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں رمزی یوسف کو مارا گیا اور نوازشریف حکومت میں ایمل کانسی کو پھانسی دی گئی ، میں نے ایسا نہیں کیا ۔
انہوں نے حکومت کی پالیسیوں پرکڑی نکتہ چینی کرتے ہوئےکہا کہ خالی سڑکیں بنانے سے بلوچستان میں تر قی نہیں ہوتی، بلوچ نوجوانوں کو جب تک پورا حق نہیں ملے گا اس وقت تک وہ کسی پراعتماد نہیں کریں گئے۔
میر ظفر اللہ خان جمالی کواکتوبر2002 کے انتخابات کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کیا۔
وزیراعظم بننے کے بعد اس وقت کےصدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے ، انھوں نے دورانِ حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی۔ ظفر اللہ جمالی ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لئے کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اوربعد ازاں پرویز مشرف کے ساتھ شدید اختلافات کی وجہ سے 26 جون 2004ء کو وزیراعظم کے عہدہ سے مستعفی ہوگئے ۔