مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاجی مظاہرے
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برما کی حکومت مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث شرپسندوں کو لگام دینے میں حیل حجت کا مظاہرے کرے تو پھر مسلمان خاندانوں کی زندگیاں بچانے کے لئے اسلامی ممالک کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ برما کے سفارت کار کو طلب کرکے سخت لب و لہجہ میں احتجاج کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین اس سفاکیت کے خلاف ہر سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے گی۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ پاکستانی قوم، اقوام متحدہ اور برما کے سفارت خانے سمیت مختلف اداروں کو احتجاجی خطوط لکھ کر برما میں مسلم کشی کو روکنے کا مطالبہ کرے، اس سلسلے میں مسلم ممالک کو بھی موثر کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستانی حکومت برما کی حکومت کو مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دے، بصورت دیگر برما سے سفارتی روابط منقطع کئے جائیں۔
دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سماجی کارکنوں اور افراد کی بڑی تعداد نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مبینہ مظالم اور تعصب کی مذمت کی اور عالمی برادری کی جانب سے اس پر خاموشی کے خلاف مظاہرہ کیا۔
مظفر آباد کی برہان وانی چوک سے گڑھی پَن چوک کی طرف نکالی جانے والی احتجاجی ریلی میں شریک افراد نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر ’کشمیری اور روہنگیاز آج کی دنیا میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہیں‘ درج تھے۔
احتجاجی مظاہرے کی قیادت کشمیری مہاجروں کی تنظیم ’پاسبانِ حریت‘ کر رہی تھی۔
احتجاج کے دوران مظاہرین نے روہنگیا مسلمانوں پر ان کے عقیدے کی بنیاد پر مظالم ڈھانے پر میانمار کی حکومت اور فوج کے خلاف نعرے لگائے۔
احتجاجی ریلی کے اختتام پر مظاہرین نے میانمار کی رہنما اور مسلمانوں کے خلاف تحریک کی روحانی لیڈر آنگ سان سوچی کے پتلے کو نذر آتش بھی کیا۔
دوسری جانب ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں میانمار میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
ملی یکجہتی کونسل کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ میانمار (برما) میں آباد لاکھوں روہنگیا مسلمان جو بنیادی شہریت اور دیگر انسانی حقوق سے دہائیوں سے محروم ہیں اور ریاستی تشدد کا متعدد بار نشانہ بنے، ایک مرتبہ پھر ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ انیس سو اٹھاسی سے لے کر اب تک مختلف واقعات میں ہونے والے حکومتی کریک ڈاون اور نسل کشی کے سبب تقریباً پانچ لاکھ سے زائد انسان خانماں برباد ہیں۔ اردگرد کے ممالک اس کثیر تعداد میں مہاجرین کو پناہ دینے پر تیار نہیں۔ 1962ء سے قبل روہنگیا مسلمان برما کے شہری تھے۔