لال مسجد کی ناکہ بندی، مولانا عبدالعزیز کا مسجد سے نکلنے سے انکار
مولانا عبدالعزیز، ان کے اہلِ خانہ اور طالبات کو لال مسجد خالی کرنے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ایک مرتبہ پھر مسجد کے اطراف کی ناکہ بندی کردی۔
حکام نے کہا تھا کہ ان کا اتوار کے روز مولانا عبدالعزیز سے سمجھوتا طے پایا تھا جس کے تحت انہیں جامعہ حفصہ کے لیے زمین الاٹ کی جائے گی اور وہ مسجد خالی کردیں گے تاہم جبکہ مولانا کے بھتیجے ہارون رشید نے مسجد خالی کرنے کا کوئی سمجھوتہ ہونے کی تردید کی جس کے بعدانسداد دہشت گردی فورس، پولیس کمانڈو، رائٹس پولیس اور خواتین اہلکاروں پر مشتمل ایک دستہ عصر کی نماز کے وقت لال مسجد پہنچا اور علاقے کی ناکہ بندی کردی۔
علاوہ ازیں لال مسجد کے اطراف میں میونسپل روڈ، مسجد روڈ، شہید ملت روڈ کے ساتھ ساتھ مسجد کے قریب ہفتہ وار بازار پر بھی پولیس اہلکاروں کو تعینات کر کے مسجد میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ لال مسجد محکمہ اوقاف کے زیرانتظام ہے اور عمومی طور پر صرف محکمے کے کسی عہدیدار کو ہی خطیب اور نائب خطیب تعینات کیا جاسکتا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ قابضین خطیب اور نائب خطیب بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن مولانا عبدالعزیز اور نہ ہی ان کے بھتیجے ہارون رشید محکمہ اوقاف کے ملازم ہیں جبکہ جس گھر اور مدرسے کی ملکیت کا یہ دعویٰ کررہے ہیں وہ بھی مسجد کی سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے۔
یاد رہے کہ مولانا عبدالعزیز کچھ روز قبل پابندی کے باوجود لال مسجد میں طالبات کے ساتھ آکر قابض ہوگئے تھے اور حکام کا ردِ عمل جانچنے کے لیے نماز جمعہ کا خطبہ بھی دیا تھا جس میں اشتعال انگیز باتیں کی گئیں تھیں۔