پرویز مشرف طاقتور فوجی حکمراں یا چوٹی کے سیاستداں
طاقتور فوجی حکمران سے چوٹی کے سیاستدان بننے والے پرویز مشرف بالآخرامائلائیڈوسس نامی غیر معمولی بیماری کے ساتھ طویل جنگ کے بعد 79 سال کی عمر میں اتوار کو دبئی میں کے امریکی ہسپتال میں انتقال کر گئے۔
سحر نیوز/پاکستان: پرویز مشرف، جو تقریباً نو سال (1999-2008) تک آرمی چیف رہے اور 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بننے کے بعد 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔
وہ 11 اگست 1943 کو برصغیر کی تقسیم سے قبل دہلی میں پیدا ہوئے تھے، پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان کراچی میں آباد ہو گیا تھا جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک اسکول سے حاصل کی۔
بعد ازاں انہوں نے کاکول میں قائم پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی اور 1964 میں ادارے سے گریجویشن کرنے کے بعد پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔
میدان جنگ کا انہیں پہلا تجربہ 1965 کی پاکستان و ہندوستان کی جنگ کے دوران ہوا اور انہوں نے ایلیٹ اسپیشل سروسز (ایس ایس جی) 1966-1972 تک خدمات انجام دیں۔
1971 کے بعد انہوں نے کئی عسکری اسائنمنٹس میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور فوج میں تیزی سے ترقیاں حاصل کیں۔
اکتوبر 1998 میں انہیں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا تاہم ایک سال بعد ہی انہوں نے ایک پر امن بغاوت کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور بعد میں صدر بن گئے تھے۔
12 اکتوبر 1999 کو فوج نے اس وقت وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کیا جب نواز شریف نے پرویز مشرف کو سری لنکا سے واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر اترنے سے روک دیا۔
اس کی اطلاع ملنے پر پرویز مشرف نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا، آئین کو معطل کر دیا اور چیف ایگزیکٹو کا کردار سنبھال لیا۔
گو کہ پاکستان میں بغاوت کے خلاف کوئی منظم مظاہرے نہیں ہوئے لیکن عالمی برادری کی جانب سے اس اقدام پر بھرپور تنقید کی گئی، بعدازاں جون 2001 میں پرویز مشرف پاکستان کے صدر بن گئے۔
ان کے صدر بننے کے چند ہی ماہ بعد امریکہ میں گیارہ ستمبر کا واقعہ رونما ہوا۔ جس کے بعد انہوں نے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اس کا اتحادی بنادیا اور اپنے اس فیصلے کا سابق فوجی حکمران کئی مواقع پر دفاع کرتے رہے۔
پرویز مشرف نے اکتوبر 2002 میں عام انتخابات کرائے جس کے دوران انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ق (پی ایم ایل-ق)، متحدہ قومی موومنٹ اور 6 مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نامی جماعت کے ساتھ اتحاد کیا۔
اس انتخاب کے ساتھ پرویز مشرف 17 ویں آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لیے مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
جنوری 2004 میں پرویز مشرف نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے 56 فیصد کی اکثریت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے متنازع قرار دیے گئے عمل میں وہ منتخب ہوگئے۔
سال 2006 میں پرویز مشرف کی خود نوشت ’ان دی لائن آف فائر ’کے عنوان سے شائع ہوئی۔
مارچ 2007 میں مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اس وقت معطل کر دیا جب جج نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنے پر استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔
20 جون 2007 کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو بحال کیا اور پرویز مشرف کی معطلی کو کالعدم قرار دیا۔
تاہم جب مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو چیف جسٹس کو دوبارہ معزول کر دیا گیا۔
ایمرجنسی کے 25 دنوں کے اندر پرویز مشرف نے اپنے آرمی چیف کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، ان کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ چارج سنبھال لیا۔
بالآخر 15 دسمبر 2007 کو پرویز مشرف نے، جو اس وقت بھی صدر تھے، ایمرجنسی اٹھا لی۔
سال 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی زیرِ قیادت مخلوط حکومت نے پرویز مشرف کو رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کا موقع دینے کے بعد ان کے مواخذے کے لیے پارلیمانی طریقہ کار پر کام شروع کردیا تھا۔
پروز مشرف نے ابتدا میں استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور جب اتحادی حکومت نے ان کی برطرفی کے لیے باضابطہ کارروائی شروع کی تو مواخذے کے حتمی انجام تک پہنچنے سے پہلے انہوں نے رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑ دیا۔
پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی کے قتل اور نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے بعد 62 ججوں کی غیر قانونی قید سے متعلق مقدمات میں بھی نامزد کیا گیا تھا، تاہم مارچ 2013 میں سندھ ہائی کورٹ نے انہیں تینوں مقدمات میں حفاظتی ضمانت دے دی۔
سال 2010 میں سابق فوجی حکمران نے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کا قیام عمل میں لایا۔ اور 17 مارچ 2016 کو علاج کے لیے دبئی گئے اور پھر پاکستان واپس نہیں آئے۔
17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں ٹرائل شروع ہونے کے 6 سال بعد پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی۔
یہ مقدمہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین کو معطل کرنے پر دائر کیا تھا۔
تاہم ایک ماہ بعد لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف سابقہ حکومت کی جانب سے کیے گئے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا جس میں سنگین غداری کے الزام میں شکایت درج کرانا اور خصوصی عدالت کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اس کی کارروائی بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں پرویز مشرف کی سزا ختم ہو گئی تھی۔
پرویز مشرف کا جسد خاکی اب کل پاکستان پہنچے گا۔
(بشکریہ پاکستانی میڈیا)