Apr ۲۷, ۲۰۱۷ ۲۳:۵۷ Asia/Tehran
  • پرتگال میں’’ شہر فاطمہ‘‘ کی زیارت

تحریر : ڈاکٹر آر نقوی

۸ مارچ سن 2017 کا دن تھا ، مجھے یک مختصر تبلیغی دورے کی غرض سے پرتگال کے دارالحکومت لیزبن آنا ہوا ۔ پرتگال میں تبلیغی مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختلف تاریخی مقامات اور شہروں کی سیاحت کا بھی موقع میسر ہوا ۔

مجھے یہ سن کر بہت ہی حیرت ہوئی کہ اس ملک میں ایک ایسا شہر ہے کہ جس کا نام ’’فاطمہ‘‘ ہے اور اس شہر میں ایک ایسی جگہ اور مقام بھی ہے کہ جہاں فاطمہ نام کی مقدس بی بی سے منسوب ایک مقدس زیارتگاہ بھی ہے ،. یہ مقدس جگہ عیسائی مذہب کے پیروکاروں نے تعمیر کی ہے۔

ان تفصیلات کے بعد بھلا کیسے ممکن تھا کہ میں اس شہر اور اس مقام کو قریب سے نہ دیکھوں ، چنانچہ لیزبں میں موجود مقامی عالم دین جناب مولانا عابد حسین صاحب کہ جن سے کئی برسوں سے مختلف حوالوں سے قریبی شناسائی تھی، کے ساتھ ایک اور مقامی مومن جناب ملک ممتاز آف چکوال کے ہمراہ 11 مارچ کی صبح ہم دارالحکومت سے فاطمہ شہر کی جانب روانہ ہوئے ۔
دوران سفر ہم ’’فاطمہ شہرمیں خوش آمدید‘‘کے بڑے بڑے سائن کو دیکھ سکتے تھے ،ان سائن بورڈز کی رہنمائی میں جب ہم شہر کے اندر داخل ہوئے تو  ہم کو ایک ایسا بورڈ نظر آیا جس پر لکھا  تھا، shrine of fatima

اسی یادگار کے قریب گاڑیوں سے کھچا کھچ پارکنگ ائیریے میں ہم نے بھی اپنی گاڑی پارک کی ، لوگوں کی ایک خاصی تعداد اس یادگار مقام کی جناب بڑھ رہی تھی ، ہم بھی اس یادگار کی جانب چل پڑے، جوں ہی ہم اس یادگار کے اندر داخل ہوئے تو ہم نے خود کو ایک وسیع وعریض ایک ایسے صحن میں پایا کہ جس کے چاروں اطراف احاطہ بندی کی گئی تھی اور دونوں اطراف میں دو بڑی یادگار  عمارتیں تعمیر تھیں جبکہ صحن کے وسط میں ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں بہت سے لوگ کھڑے کسی پاردی کا لیکچر سن رہے تھے ۔

صحن کے دوسری جانب یا چبوترے کی جانب جاتے  ہوئے سنگ مرمر کی اس پگڈنڈی نے ہماری توجہ اپنی جانب کھنچ لی جس پرایک شخص گھٹنوں کے بل آگئے بڑھ رہا  تھا ،معلوم ہوا کہ سنگ مرمر کا یہ خصوصی راستہ ان لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے جو روحانی تسکین یا دیگر مذہبی عقیدے کے اظہار کے لئے گھٹنوں یا کہنیوں کے بل  چل کر اس مقدس صحن کو عبور کرتے ہیں ۔

ہم نے ایک ایسے نیپالی شخص کو دیکھا جو گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے اس صحن کے آخری کنارے کے قریب پہنچ چکا تھا، ہمارے استفسار پر معلوم  ہوا کہ یہ شخص نہ تو  مسلمان ہے اور نہ ہی عیسائی بلکہ اس کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔ ہمارے پوچھنے  پر اس شخص کا کہنا تھا کہ’’ وہ اپنی روحانی تشنگی کو دور کرنے کے لئے اس عمل کو انجام دے رہا  ہے اور وہ اس سے پہلے بھی متعدد بار یہاں آچکا  ہے، ہم جب آگے  بڑھے تو  ہم نے چبوترے پر ایک پادری کو دیکھا جواپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق دعا اور مناجات میں مصروف تھا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے اطرف کھڑی عبادت میں مصروف تھی ۔

کچھ دیر ہم اس منظر کو دیکھتے رہے اور پھر آگے  بڑھے ، آگے  بڑھنے کے بعد ہمیں کسی قسم کی کوئی زیارت یا مزار نظر نہیں آیا کہ جس کا خیال ہم رکھتے تھے کہ شائد یہاں کسی بی بی کا کوئی مزار ہوگا ۔ اس وسیع وعریض جگہ پر تلاش بسیار کے بعد بھی ہمیں کوئی ایسی تحریر یا بورڈ نظر نہیں آیا جو اس مقام کے بارے میں کچھ تفصیل بتائے، تلاش کرتے کرتے جب ہم پادری کے خصوصی آفس بیرئر کے اندر داخل ہوئے تو گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے قوی الجثہ پاردی صاحب ہمارے سامنے  تھے جو اندر کی عمارت سے باہر نکل رہے تھے، ادھیڑ عمر پادری کو دیکھ کر ہم نے احتراما انہیں مقامی زبان و انگلش میں آداب عرض کیا اور ان سے سوال کیا ’’کیا آپ انگلش بول سکتے ہیں ‘‘پادری نے بڑے اطمینان سے سرہلایا اور نحیف سی آواز کے ساتھ کہا :  یس - یس ۔ 

ابتدائی تعارف کے بعد ہم نے ان سے اس مقام کی تاریخی و مذہبی حیثیت کے بارے میں پوچھا تو ۔ہمیں سخت حیرت ہوئی کہ ہمارے سوال پر پادری کی چہرے پر سخت ناگواری نظرآرہی تھی ، اسی اثنا میں انہوں نے انگلش میں بڑی سختی کے ساتھ اور روکھے لہجے میں صرف اتنا کہا ’’(I DONT KNOW ANY THING) میں کچھ نہیں جانتا ‘‘ ہمیں ایک عیسائی مقدس مقام پر ایک عیسائی عالم کے اس رویے پر سخت حیرت اور دکھ ہوا جس کی ہمیں تو قع نہ تھی ۔

اس کے بعد وہاں کھڑے ان کے پروٹوکول گارڈ ممبرز میں سے کسی ایک نے بڑے احترام کے ساتھ ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ایک چھوٹے سے انفارمیشن سنٹر کی جانب رہنمائی کی جہاں ایک میانہ عمر کی خاتون موجود تھیں جن کے کاونٹر پر بہت سے بروشرز پڑے تھے ۔

خاتون سے گفتگو کے دوران ہمیں اس وسیع و عریض مقام کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: (جاری ہے)

 

 

 

ٹیگس