آیت کا پیغام (23) : دوا
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ…(سورہ اسراء ۔ آیت 82) اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کر رہے ہیں جو شفا ہے۔
ڈاکٹر ایک مریض کو رنگ برنگی مختلف قسم اور شکل کی دوائیں دیتا ہے۔ ہر ایک کا ذائقہ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ کچھ شہد کی طرح میٹھی ہوتی ہیں تو کچھ زہر کی طرح کڑوی۔ مگر سبھی دوائیں ایک مقصد کے تحت مریض کو دی جاتی ہیں اور وہ ہے اسکی صحت یابی۔ جو مریض صحتیاب ہونا چاہتا ہے اسے دوائیں چھانٹنے کا حق نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں کر سکتا کہ جو دوائیں میٹھی اور ذائقے دار ہیں انہیں استعمال کرے اور جو کڑوی اور بد مزہ ہیں، انہیں چھوڑ دے۔
اگر کوئی مریض اپنی مرضی سے دوائیں کھاتا ہے تو وہ کبھی صحتیاب نہیں ہوتا۔
ہم انسانوں کی مثال مریض کی سی ہے اور قرآنی آیات دواؤں کی مانند ہیں اسی لئے اللہ نے آیات میں شفا قرار دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ…(سورہ اسراء ۔ آیت 82)
اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کر رہے ہیں جو شفا ہے۔
اگر آیات دوا ہیں تو انہیں چھانٹنے کا حق نہیں ہے۔
امت اسلامیہ اہل قرآن ہونے کے باوجود جو بے شمار امراض، تکالیف اور مشکلات کا شکار ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ ہم آیات میں ویسے کانٹ چھانٹ کرتے ہیں جیسے پھلوں میں کی جاتی ہے۔ جو آیات اپنے مزاج کے مطابق ہیں انہیں لے ان پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں اور جو ہمارے مزاج پر بار ہوتی ہیں ان آیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر نماز کا حکم دینے والی آیت پرعمل کر لیتے ہیں، روزے کی آیت پر بمشکل عمل کرتے ہیں، یا حج اور عمرہ کا حکم دینے والی آیات پر عمل کرتے ہیں مگر خمس کی ادائیگی یا غیبت سے پرہیز کو بتانے والی آیات سے غافل ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں سیر سپاٹے کرنے کی جانب ترغیب دلانے والی آیات ہمیں پسند ہیں مگر صلۂ رحم اور دوسروں کے ساتھ نیکی کا حکم دینے والی آیات میں ہمیں دلچسپی نہیں ہے۔
یاد رکھئے! ہم مریض ہیں اور ہمارے امراض کی دوا قرآنی آیات کا مجموعہ ہے۔ اگر ان آیات میں ہم نے کانٹ چھانٹ کرنے کی کوشش کی تو ہم کبھی صحتیاب نہیں ہو پائیں گے۔
تحریر:استاد محمد رضا رنجبر
ترجمہ:سید باقر کاظمی