Apr ۰۸, ۲۰۱۹ ۲۰:۴۹ Asia/Tehran

سحرعالمی نیٹ ورک کی جانب سے ہم اپنے تمام ناظرین ، سامعین اورقارئین کرام کی خدمت میں 3 شعبان ولادت با سعادت نواسہ رسول (ص) سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کی مناسبت پرتبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں

قال رسول اللہ ؐ : 

" بے شک حسینؑ ہدایت کا روشن چراغ و نجات کی کشتی ہیں ۔"

 

ماہ رجب المرجب کی مانند ماہ شعبان المعظم بھی افق امامت و ولایت پر کئی آفتابوں اور ماہتابوں کے طلوع اور درخشندگی کا مہینہ ہے ۔اس مہینے میں بوستان ہاشمی و مطلبی اور گلستان محمدی و علوی کے ایسے عطر پذیر و سرور انگیز پھول کھلے ہیں کہ ان کی مہک سے صدیاں گزرجانے کےبعد بھی مشام ایمان و ایقان معطر ہیں اور ان کی چمک سے سینکڑوں سال کی دوری کے باوجود قصر اسلام و قرآن کے بام و در روشن و منور ہیں 

 
سکون دیدہ و دل ہے مرے حسین کا ذکر/// سدا بہار سلامت رہے حسین کا ذکر
(نادر صدیقی)

تین شعبان المعظم سنہ 4 ہجری چھ سو پینتیس عیسوی کو رسول اعظم حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے نواسے امام حسین (ع) کے نور وجود سے " مدینۃ النبی " کے بام و در روشن و منور ہوگئے ۔ مرسل اعظم (ص) کی عظیم بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (س) اور عظیم بھائی ،داماد اور جانشین علی ابن ابی طالب کے پاکیزہ گھر میں نسل نبوت و امامت کے ذمہ دار امام حسین (ع) کی آمد کی خبر سن کر پیغمبر اسلام (ص) کا دل شاد ہوگیا ،آنکھیں ماہ لقا کے دیدار کے لئے بیچین ہو اٹھیں ،فورا" بیٹی کے حجرے میں داخل ہوئے اور مولود زہرا (س) کو دیکھ کر لبوں پر مسرت کی لکیریں پھیل گئیں آغوش میں لے کر پیشانی کا بوسہ لیا اور فرزند کے دہن میں اپنی زبان دے دی اور رسالتمآب کا لعاب دہن فاطمہ (س) کے چاند کی پہلی غذا قرار پایا اور مرحوم نذیر بنا رسی کے بقول:

بظاہر تو زباں چوسی بباطن ابن حیدر نے

زباں دےدی پیمبر کو زباں لےلی پیمبر سے

جبرئیل امین نازل ہوئے خدا کی جانب سے خدا کے حبیب کو نواسے کی مبارک باد پیش کی اور کہا :اے اللہ کے رسول ! خدا نے بچے کا نام حسین (ع) قرار دیا ہے ،نام سنتے ہی رسول اعظم (ص) کی آنکھیں جھلملا اٹھیں بچے کو سینے سے چمٹالیا ، بیٹی نے باپ کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو رسول اسلام (ص) نےامین وحی کی زبانی حسین (ع) کا صحیفۂ شہادت نقل کردیا اور بخشش امت کے وعدے پرحسین (ع) کی ماں کو راضی کرلیا ۔

علی (ع) و فاطمہ (س) کا چاند چھ سال تک آفتاب نبوت و رسالت کے ہالے کی شکل میں نانا کے ساتھ ساتھ رہا اور تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مدینۂ منورہ میں نانا اور نواسے کی محبت ضرب المثل بن گئی اور ایسا کیوں نہ ہوتا ،جبکہ حسین (ع) مشیت الہی کا محور اور پیغمبر اسلام (ص) کی دلبر کے دلبر تھے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی جگہ جگہ امام حسین (ع) کی شخصیت کا تعارف کرایا ہے :صحیح ترمذی میں یعلی ابن مرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا ہے : " حسین منی و انا من الحسین احب اللہ من احب حسینا" حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں اور خدا اس کو دوست رکھتا ہے جو حسین (ع) کو دوست رکھتا ہے ۔

روایتِ فرزند رسول امام حسین علیہ السلام

سلمان فارسی سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم کو کہتے سنا ہے حسن و حسین میرے بیٹے ہیں جس نے ان سے دوستی کی میرا دوست ہے اور جس نے ان سے دشمنی کی وہ میرا دشمن ہے بہرحال ، امام حسین (ع) کی شخصیت سے رفتار و کردار کی جو شعاعیں پھوٹی ہیں آج بھی الہی مکتب کی فکری ،اخلاقی اور تہذیبی حیات کی اساس ہیں اور نہ صرف عالم اسلام بلکہ پورا عالم بشریت حسینیت کی مشعل سے فروزاں ہے عبادت و بندگی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ وضو کرتے تھے تو بدن میں تھرتھری پیدا ہوجاتی تھی کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو امام حسین (ع) نے فرمایا : حق یہی ہے کہ جو شخص کسی قومی و مقتدر حاکم کی بارگاہ میں کھڑا ہو اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑجائے اور جسم کے بند بند کانپ اٹھیں ۔ 

حسین (ع) کی شان میں قرآن حکیم رطب اللسان اور ان سے اسلام و ایمان سربلند و ذیشان ہے ،حسین (ع) نورٌ عليٰ نور کی تفسیر نورالنور کی تنویر ، مجسمۂ رسالت کی تصویراور مکمل نبوت کی تعبیر ہے، حسین (ع) قرآن مجید کی تحریر ،دین الہی کی شمشیر ،انوار ولایت کی تکبیر اور اسرار امامت کی تشہیر ہے، حسین (ع) نورنگاہ نبوت ،جگرگوشۂ عصمت ، جلوہ نمائے ولایت اور قوت اسلام و شریعت ہے ،حسین (ع)آسمان شہادت کا آفتاب ، افق ہدایت کا ماہتاب، گلشن توحید کا سرخ گلاب اور خزانۂ اسلام کا گوہر نایاب ہے ۔چنانچہ خداوند عالم نے اپنی کتاب محکم و مستحکم قرآن مجید میں مختلف عنوانوں سے امام حسین (ع) کا تعارف کرایا ہے جیسا کہ صحاح ستّہ کے محدثین نے اپنی اپنی صحیحوں میں لکھا ہے کہ جب " اصحاب کساء " رسول اعظم (ص) کے ساتھ چادر تطہیر میں جمع ہوگئے رسول اسلام (ص) نے علی و فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :اللّھمّ ھؤلاء اَھلُ بَیتی فَاذھب عَنھمُ الرّجس وَ طَھرھم تطھیرَا"خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں پس ان کو ہر قسم کی آلائش سے پاک و پاکیزہ قراردے دے ،اس وقت آیۂ تطہیر نازل ہوئی اور اہل بیت علیہم السلام منجملہ حضرت امام حسین (ع) کی عصمت و طہارت کا خدا نے اعلان کردیا،اسی طرح آیۂ مباہلہ کے ذیل میں مفسرین کا اجماع ہے کہ اس میں : "ابنائنا " سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں جن کو خداوند عالم نے" رسول اسلام کے بیٹے " قراردیا ہے ۔اور آیۂ مودت کے بارے میں مفسرین اہل سنت نے بھی لکھا ہے کہ یہ آیت علی (ع) و فاطمہ (س) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم نے صحیحین میں اور ثعلبی و طبرسی نے اپنی تفاسیر میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ آیۂ مودت نازل ہوئی تو اصحاب نے حضور (ص) سے سوال کیا آپ کے قرابتدار کون ہیں تو حضرت نے فرمایا : علی وَ فَاطمہ وَ اَبنَاہُمَا علی (ع) و فاطمہ (س) اور ان کے دونوں بچے ۔

شب عاشورا ، عبادت کے لئے دشمنوں سے ایک شب کی مہلت مانگی توکسی نے اس کی وجہ پوچھی اس وقت آپ نے فرمایا : چاہتا ہوں آخری رات پروردگار کی عبادت میں گزاروں اور استغفار کروں وہ جانتا ہے میں کس قدر نماز کا عاشق ہوں اور قرآن کی تلاوت پسند کرتا ہوں اور زیادہ سے زیادہ دعا و استغفار کرنا چاہتا ہوں ۔دوسری جانب خدا کے بندوں کے ساتھ آپ کے کریمانہ اخلاق و رفتار کا یہ عالم تھا کہ
اس میدان میں بھی امام حسین (ع) کی شخصیت نمونہ و مثال نظر آتی ہے ۔
 

ذیل میں ہم قیام امام حسین علیہ السلام کے سلسلہ میں رہبر انقلاب کے مختلف خطبوں سے کچھ اقتباسات پیش کر رہے ہیں

 
قیام و نہضت امام حسین علیہ السلام

 

امام حسین علیہ السلام اور تبلیغ دین کی سنگین قیمت
 
قیام امام حسین علیہ السلام اور دعا۔ ویڈیو

 

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

 بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

 

اور جوش ملیح آبادی کے بقول :موت کےسیلاب میں ہرخشک و تر بہہ جائے گا

ہاں مگر نام حسین (ع)ابن علی (ع) رہ جائےگا 

شاید یہ تحریر امام حسین (ع) کی ہے ۔ تصاویر
حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس کے مخصوص میوزیم میں صدیوں پرانے نفیس قرآن کریم موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ وہ بعض ائمہ علیہم السلام کے دست مبارک سے تحریر کئے گئے ہیں۔انہیں میں سے ایک یہ قرآن کریم ہے جو سید الشہدا امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہے۔

 

ٹیگس