Dec ۱۰, ۲۰۲۱ ۰۷:۵۶ Asia/Tehran

ثانی زہرا، پیغامبر کربلا، فرزند حضرت مصطفیٰ (ص)، دختر علی (ع) و زہرا (ع) حضرت زینب کبریٰ علیہا سلام کا یوم ولادت مبارک ہو، اس روز کو ایران میں ’’نرس ڈے‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پانچ جمادی الاولیٰ سنہ پانچ ہجری کو حضرت زینب کبریٰ علیہا سلام کی ولادت با سعادت مدینۂ منورہ میں ہوئی۔

نرسنگ کا مفہوم حضرت زینب کبریٰ (ع) کی حیات طیبہ میں پچپن سے ہی بڑا نمایاں رہا ہے۔ بچپن میں اپنی مادر گرامی بنت رسول، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ایامِ بیماری میں ننہی زینب ہی تھیں جو ایک نرس کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ جس وقت بنت رسول (ع) نے اپنی تمام تر ناتوانی کے باوجود دارالخلافہ جا کر تاریخی خطبہ دینے کا ارادہ کیا تو آپ کی چھے سالہ بیٹی زینب ہی آپ کا سہارا بنیں اور وہاں تک آپ کی ہمراہی کی۔

اسکے بعد نرسنگ کا یہ سلسلہ گھر میں بھی جاری رہا اور اسکی دوسری بارز مثال اُس وقت سامنے آئی جب امیر المومنین علی علیہ السلام کے سر پر ضربت لگی اور آپ زخمی حالت میں بیت الشرف میں تشریف فرما رہے۔

پھر اُس کے بعد تاریخ نے زینب کبریٰ (ع) کے لئے ایک اور تلخ ورق رقم کیا اور آپ کے برادر بزرگوار حضرت حسن علیہ السلام مسموم ہو جانے کے بعد بسترِ بیماری پر پڑ گئے، تب بھی زینب ہی تھیں جو تا دمِ شہادت اپنے بھائی کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔

مگر ان تمام واقعات سے بڑھ کر ایسا وقت اور مرحلہ بھی آتا ہے جب زینب کبریٰ کی تیمار داری اور آپ کی نرسنگ رہتی دنیا تک کے لئے ایک مشعل راہ بن گئی اور آپ کو تاریخ کی ایک عظیم نرس کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ اس مرحلے کا آغاز سرزمین کربلا پر ہوا۔ جب آپ کے بھتیجے، ابن حسین حضرت سجاد علیہ السلام بستر بیماری پر تھے۔  حضرت سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: جس شب میرے پدر کی شہادت ہوئی، اُس شب کو میں بیٹھا ہوا تھا اور میری پھوپھی زینب میرے پاس تھیں اور بہترین شکل میں میری تیمارداری کر رہی تھیں۔ (ارشاد مفید، ج 2، ص 93 )

اُس کے بعد جب عصر عاشور دشمنان خدا و رسول کے لشکر نے شہادتِ حسین (ع) کے بعد خیامِ حسینی میں آگ لگائی تب بھی بنت علی نے بیماری کے باعث ناتواں ہو چکے اپنے بھتیجے سجاد (ع) کو آگ کی لپٹوں سے نکال کر محفوظ مقام تک پہونچایا۔ یہاں پر لشکرِ عدو کے ایک سپاہی کا بیان تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے، وہ کہتا ہے: جس وقت خیموں کو لوٹا جا رہا تھا اُس وقت میں نے دیکھا کہ ایک قد بلند خاتون ایک پروانے کی مانند ایک جلتے خیمے کے ارد گرد طواف کر رہی ہے، کبھی خیمے میں داخل ہوتی ہے اور کبھی خیمے سے باہر آتی ہے۔ میں تیزی سے اُس کے پاس پہونچا اور بولا  کہ بی بی کیا تمہیں آگ کی لپٹیں نظر نہیں آ رہی ہیں؟! آخر کیوں دیگر خواتین کی طرح تم بھی کسی محفوظ مقام تک نہیں چلی جاتیں؟ اُس خاتون نے بھری آواز میں کہا: اے شخص! ایک بیمار اور ناتواں اس جلتے خیمے کے اندر موجود ہے جس میں اٹھنے بیٹھنے کی توانائی نہیں ہے، آخر میں کیسے اُسے اس کے حال پر چھوڑ سکتی ہوں جبکہ آگ ہر سمت سے اسکی جانب شعلہ ور ہے؟! (وفیات الائمه، ص 159)

عصر عاشور کے بعد سے آپ نہ صرف یہ کہ اپنے بھتیجے کی تیمارداری اور دیکھ بھال کرتی رہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ستمدیدہ بیبیوں اور بچوں کا بھی آپ کو خیال تھا اور ایک قافلہ سالار کی حیثیت سے ایک ایک فرد، ایک ایک بچے اور خاتون کی دیکھ بھال کو آپ نے اپنا فرض سمجھا۔

حضرت زینب کبریٰ علیہا سلام نے اپنے بچپن سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک ایثار و فداکاری، ایمان و پاکیزگی، معرفت و بصیرت، عفت و حیا، صبر و تحمل اور فولادی عزم و ارادے کے وہ ابواب رقم کئے ہیں جو تا قیام قیامت حقیقت و معرفت کی تشنہ انسانیت کو سیراب کرتے رہیں گے۔

آپ کی آفاقی شخصیت و حقیقت کے پیش نظر ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد آپ کے یوم ولادت کو ’’نرس ڈے‘‘ کا عنوان دے کر دنیا کے لئے یہ واضح کر دیا گیا کہ آغوش اسلام میں ایسے گوہر پارے موجود ہیں جنکی نظیر تا قیام قیامت کہیں اور نظر نہیں آئے گی اور مکتب اسلام کی پرورہ نرسیں ایمان، معرفت، عفت و حیا، طہارت و پاکیزگی اور ایثار و فداکاری کا پیکر ہوا کرتی ہیں۔

 

ٹیگس