قرہ باغ کے علاقے میں جمہوریہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جھڑپوں پر عالمی ردعمل
قرہ باغ کے علاقے میں جمہوریہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جھڑپوں پر عالمی سطح پر مختلف قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
شین ہوا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ انھیں قرہ باغ اور جمہوریہ آذربائیجان کی سرحد پر فائرنگ کے تبادلے سے گہرا صدمہ پہنچا ہے، کہا کہ اس جھڑپ میں بھاری ہتھیاروں کے استعمال اور بھاری جانی نقصان پر مبنی رپورٹیں ان کے لیے تشویش کا باعث بنی ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ نے بھی قرہ باغ کے علاقے میں جھڑپوں کی سختی سے مذمت کی اور دونوں فریقوں سے اپیل کی کہ وہ جھڑپیں روک کر فورا جنگ بندی کی بحالی کے لیے مذاکرات شروع کریں۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی ہفتے کے روز قرہ باغ میں کشیدگی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس علاقے میں فائرنگ کے تبادلے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور وزیر دفاع سرگئی شویگو نے بھی آرمینیا اور جمہوریہ آذربائیجان کے اپنے ہم منصبوں سے فون پر بات چیت میں قرہ باغ کے علاقے میں جھڑپوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔
ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں آرمینیا پر جنگ بندی کی خلاف ورزی اور آذربائیجان کے فوجیوں پر فائرنگ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور جھڑپوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہ جو امریکہ کے دورے پر ہیں، جمہوریہ آذربائیجان کے اے این ایس ٹی وی چینل سے بات چیت میں مینسک گروپ پر الزام لگایا کہ وہ قرہ باغ کے مسئلے کو حل کرنے میں سستی سے کام لے رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی دونوں فریقوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی۔
آرمینیا کی وزارت دفاع نے ہفتے کی رات اعلان کیا کہ ہفتے کے روز ہونے والی جھڑپوں میں آرمینیا کے اٹھارہ فوجی ہلاک اور پینتیس زخمی ہو گئے۔ جمہوریہ آذربائیجان کی وزارت دفاع نے بھی کہا ہے کہ اس کے بارہ فوجی مارے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ آرمینیا اور جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان قرہ باغ کے علاقے کی ملکیت کے بارے میں تنازعہ انیس سو اٹھاسی میں شروع ہوا۔