اسرائیل کی کھوکھلی دھمکیوں میں کتنا اثر ... + مقالہ
صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی دھمکیاں پھر سے شروع ہوگئی ہیں۔ انہوں نے تل ابیب کے دورے پر جانے والے روس کے نائب وزیر اعظم میکسیم اکیموموف سے کہا کہ اسرائیلی فضائیہ شام میں اپنے اہداف کو نشانہ بناتی رہے گی اور شام کو روس سے ایس- 300 دفاعی سسٹم مل جانے کے باوجود بھی اسرائیلی فوج کے حملے جاری رہیں گے۔
نتن یاہو کی دھمکیوں کا ایک ہی ہدف ہے، اسرائیل میں رہنے والوں کو یقین دہانی کرانا کیونکہ شام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے اسرائیل کے اندر لوگوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے، دوسری جانب حزب اللہ کی میزائل توانائی سے اسرائیلی فوج کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ ایران نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اگر شام میں ایرانی فوجی مشیروں پر اسرائیل نے حملہ کیا تو اس کا دندان شکن جواب دیا جائے گا۔
روس نے شام کو ایس- 300 میزائل ڈیفنس سسٹم دے کر شامی فوج کو طاقتور بنا دیا ہے کہ وہ شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے اسرائیلی طیاروں کو سرنگوں کر دیں۔ جب سے یہ سسٹم شام کو ملا ہے تب سے اسرائیل کے کسی بھی طیارے کے پاس شام کے اندر کوئی حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی ہے۔
اس وقت صیہونی حکومت اپنے شدید بحران کا سامنا کرنے کے لئے دو جہت میں مصروف ہے۔ ایک دو یہ کی صیہونی حکومت کی کوشش ہے کہ ماسکو میں صدر پوتین اور صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کی ملاقات ہوجائے اور تعلقات گزشتہ حالات پر واپس ہو جائیں۔ دوسری کوشش یہ ہے کہ اسے ایسے سسٹم مل جائیں جن کی مدد سے ایس-300 کو بے اثر بنا دیا جائے اور اسرائیلی طیارے شام کے اندر حملہ کر سکیں۔
جہاں تک روسی صدر ولادیمیر پوتین سے نتن یاہوں کی ملاقات کا سوال ہے تو اب تک اسرائیلی کی لاکھ کوششوں کے باوجود یہ ملاقات نہیں ہو پائی کیونکہ صدر پوتین نے اب تک بارہا اس ملاقات سے انکار کیا ہے۔ اسرائیل سے مسلسل تین بار اس ملاقات کے لئے ماسکو ٹیلیفونی رابطہ کیا گیا لیکن ماسکو سے یہی جواب ملا کہ صدر پوتین اس موضوع کا ابھی جائزہ لے رہے ہیں۔
کریملن ہاوس کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے کہا کہ صدر پوتین کے اس ملاقات کا وقت معین کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اگر دونوں رہنماؤں میں ملاقات ہو جاتی ہے تب بھی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ روس نے اسرائیل کی بات قبول کر لی ہے۔
اگر دوسرے موضوع کی بات کریں یعنی ایس-300 میزائل ڈیفنس سسٹم کو بے اثر بنانے والے وسائل امریکا سے حاصل کرنے کا مسئلہ ہے تو ہو سکتا ہے کہ واشنگٹن اس مطالبے کو قبول کر لے لیکن اس کا براہ راست مطلب روس کو جنگ کی دعوت دینا ہے اور روس کو جنگ کی دعوت دینے کا مطلب یہ ہے کہ جواب کے لئے بھی طیار رہنا چاہئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روس اس کے بعد ایس-400 میزائل شام کو دے دے۔
اگر اب شام پر اسرائیل کوئی حملہ کرتا ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل سے اس کی براہ راست جنگ شروع ہو جائے اور نتن یاہو کو ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈر حسین سلامی کی نصیحت پر عمل کرنا پڑے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نتن یاہو کو بحیرہ روم میں تیرنے کی مشق کر لینا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے ایام میں انہیں فرار ہونے کے لئے اسی راستے کا استعمال کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔
نتن یاہو بحران میں ہیں اور اب ان پر مایوس کے اثرات صاف دکھائی دینے لگے ہیں وہ اسی مایوسی میں کھوکھلی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کی دھمکیوں میں کوئی دم خم نہیں رہا ہے۔ اگر نتن یاہو کے پاس ہمت ہے تو دھمکی دینے کے بجائے اپنے طیارے روانہ کر دیں، اتنظا کیوں کررہے ہیں؟
جواب یہ ہے کہ انہیں ایسے جوابی حملے کا خوف ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر پائيں گے اور اسرائیل سے یہودیوں کی مہاجرت شروع ہو جائے گی۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان