انسانی حقوق کی آٹھ تنظیموں کا سعودی عرب سے مطالبہ
انسانی حقوق کی آٹھ تنظیموں نے سعودی عرب سے انسداد ایذا رسانی کے عالمی معاہدے کی پاسداری اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مذکورہ تنظیموں کی جانب سے لندن میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خراب صورت حال کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس کے بعد جاری کیے جانے والے مشترکہ بیان میں سعودی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ انسداد ایذا رسانی کے عالمی معاہدے پر عمل کریں جس پر ان کے ملک نے دستخط کر رکھے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مشترکہ بیان میں تشدد اور ایذا رسانی کے ذریعے اعتراف لے کر سزا پانے والے سیاسی قیدیوں کے مقدمات غیر فوجی عدالتوں میں منتقل کیے جانے اور ان کی از سر نو سماعت کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے سعودی عرب میں سوشل میڈیا کے ذریعے انسانی حقوق کے معاملات اٹھائے جانے پر عائد قانونی بندشیں بھی فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فعال سعودی خاتون اسرا الغمغام کی رہائی کے لیے کمپین بھی شروع کر دی۔
سعودی سیکورٹی اہلکاروں نے تمام شہریوں کے لیے یکساں حقوق کا مطالبہ کرنے والی فعال سعودی خاتون اسریٰ الغمغام اور ان کے شوہر موسی الہاشم کو دو ہزار پندرہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔
قطیف کے شیعہ آبادی والے علاقے سے تعلق رکھنے والی انتیس سالہ اسریٰ الغمغام پر مظاہرین کو اشتعال دلانے اور ان کی حمایت کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
سعودی پراسیکیوٹر نے اسریٰ الغمغام اور پانچ دیگر خواتین کو سزائے موت کی سفارش کی ہے۔
سعودی عرب میں بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سیاسی جدوجہد اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی گرفتاریوں میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے۔
ادھر اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے سعودی ولی عہد پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ بن سلمان کو ظالمانہ رویہ ترک کرنا ہو گا۔
امریکی مندوب کے عہدے سے استعفی دینے والی نکی ہیلی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی ولی عہد کو مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے واضح اور شفاف جواب دینا ہے۔