آل سعود کے جرائم پر دنیا میں صدائے اعتراض بلند
عالمی اداروں، تنظیموں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے سعودی عرب میں سینتیس شہریوں کو اجتماعی طور پر سزائے موت دیئے جانے پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔
سعودی عرب میں سینتیس افراد کو بیک وقت سزائے موت دیئے جانے کے واقعے پر احتجاج کرنے والے سیکڑوں لوگ لندن میں سعودی سفارت سفارت خانے کے سامنے جمع ہوئے اور انہوں نے آل سعود کے خلاف نعرے لگائے۔
مظاہرین نے جن کے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور سرقلم کئے جانے والے شہداء کی تصاویر موجود تھیں سعودی عرب کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے ایسے پلے کارڈ بھی اٹھا رکھتے جن پر، آل سعود قاتل ہے، قاتل کی حمایت جرم ہے اور آل سعود کی حمایت بند کرو جیسے نعرے درج تھے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر یورپی ممالک کی خاموشی کی مذمت کی اور اس جابر حکومت کی حمایت ترک کرنے کا مطالبہ کیا۔
بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے بھی سعودی عرب میں اجتماعی سزائے موت دیئے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر نے سینتیس افراد کو سزائے موت دیئے جانے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کے کیس کی سماعت کے طریقہ کار اور ملزمان سے جبری اعترافی بیان لینے کے لئے ایذا رسانیوں سے متعلق رپورٹیں موصول ہوئی ہیں۔
انہوں نے سعودی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ، اپنے قوانین پر نظرثانی کر کے مزید افراد کو سزائے موت دینے منجملہ ان تین لوگوں کو کہ جنھیں عنقریب سزائے موت دینے کا اعلان کیا گیا ہے موت کی سزا پر عمل درآمد سے گریز کریں۔
یورپی یونین نے بھی سعودی عرب میں سینتیس افراد کے سرقلم کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے سعودی حکومت کے انسانی حقوق کے حوالے منفی رجحان کی نشاندہی ہوتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب میں سزائے موت پر سرقلم کر کے عمل درآمد سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی حکام انسانی جانوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور وہ سزائے موت کو اپنے مخالفین اور شیعہ مسلمانوں کی سرکوبی کے ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
برطانوی وزارت خارجہ نے بھی سعودی کے اس اقدام کو قابل نفرت اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ملکوں کی جانب سے سعودی اقدامات کی مذمت ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب یہ ممالک آل سعود حکومت کی سیاسی اور فوجی حمایت میں پیش پیش ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی حکومتیں آل سعود کے انسانیت سوز جرائم کے خلاف زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات انجام دیں۔
ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے بھی کہا ہے کہ مخالف صحافی جمال خاشقجی کے ٹکڑ ٹکڑے کیے جانے پر آنکھیں بند کرنے بعد، سینتیس افراد کے سرقلم کیے جانے پر بھی ٹرمپ انتظامیہ کے لب نہیں ہلے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم بی کی رکنیت، بولٹن، بن سلمان، بن زائد اور بنیامین نتن یاہو کو کسی بھی جرم پر سزا سے محفوظ رکھتی ہے۔