بریگزٹ پر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی
بریگزٹ برطانوی عوام کا اہم ترین اور یورپی یونین کا بنیادی ترین مسئلہ بنا ہوا ہے اور ریفرندم کو تین سال پورے ہو جانے اور بریگزٹ کےبارے میں برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان سمجھوتہ طے پا جانے کے باوجود اسے برطانیہ کی پارلیمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہے جس کی بنا پر بریگز کی صورت حال اب تک مبہم اور غیر یقینی بنی ہوئی ہے۔
برطانیہ کے نئے وزیر اعظم بورس جانسن نے یورپی کمیشن کے سربراہ جان کلوڈ یانکر کو بتایا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے سمجھوتے بریگزٹ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ کی جانب سے اب تک تین بار مسترد کیا جا چکا ہے اور موجودہ صورت حال میں اس کی منظوری ناممکن نظر آتی ہے۔
جبکہ جواب میں کمیشن کے سربراہ جان کلوڈ یانکر نے کہا ہے کہ بریگزٹ میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔
بریگزٹ کے مسئلے پر مذاکرات کے لئے یورپی یونین کے اعلی مذاکرات کار میشل بارنیہ نے بھی کہا ہے کہ بریگزٹ کے بارے میں برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کی درخواست ناقابل قبول ہے۔
برطانیہ کے نئے وزیراعظم نے ایک بار پھر تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ ان کا ملک اکتوبر ختم ہونے تک یورپین یونین سے نکل جائے گا۔
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے اپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا ہے کہ انھوں نے جو مہلت مقرر کی ہے اس کے اندر ہی برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا خواہ کوئی سمجھوتہ طے پائے یا بغیر سمجھوتے کے ہی یہ قدم اٹھانا پڑے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد اس یونین کے ساتھ برطانیہ کا نیا سمجھوتہ طے پا جائے گا۔ بورس جانسن نے کہا کہ برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی کے تمام منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم بورس جانسن نے بدھ کے روز باضابطہ طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد انھوں نے کہا کہ بریگزٹ کی شقیں ناقابل قبول ہیں اور وہ ہر قیمت پر یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے منصوبے پر عمل کریں گے۔
انھوں نے یہ اعلان ایسی حالت میں کیا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے کو نومبر دو ہزار اٹھارہ میں یورپی یونین کے ستائیس ملکوں کی حمایت حاصل ہو چکی ہے تاہم برطانیہ کی پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ کو اب تک تین بار مسترد کیا جا چکا ہے اور اسی مسئلے پر برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا میے کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا ہے اور ان کے مستعفی ہونے کے بعد ہی بورس جانسن برطانیہ کے وزیر اعظم بنے ہیں۔
بورس جانسن بریگزٹ کے سخت حامی ہیں اور انھوں نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ اگر برطانیہ کے وزیر اعظم بنے کو تو ہر حالت میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے پر عمل کریں گے خراہ اس کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانا پڑے۔
برطانیہ کی پارلیمنٹ سے اس مسئلہ کا بیڑہ پار لگانے کے لئے بورس جانسن کے پاس تین ماہ کی مہلت ہے جبکہ اقتدار میں آتے ہی ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس سلسلے میں برطانیہ کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے پچّیس جولائی کو تجویز پیش کی ہے کہ بریگزٹ پر اگر بورس جانسن نے اصرار جاری رکھا تو برطانوی دارالعوام میں ان کے خلاف عدم اعتماد اور عدم اہلیت کی تحریک شروع کر دی جائے گی۔
برطانیہ کی حزت اختلاف کی اہم ترین جماعت لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کوربن نے بھی بورس جانسن کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پہلی تقریر کے بعد برطانیہ میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس بات کا فیصلہ اب برطانوی عوام ہی کریں گے کہ ملکی امور کی باگ ڈور وہ کس کے ہاتھ میں دینا چاہتے ہیں۔