سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں! ۔ ویڈیو
اسلام، دین اعتدال ہے اور وہ زندگی میں کنجوسی اور اسراف دونوں سے منع کرتا ہے۔ سامان زندگی فراہم کرنے کو کہتا ہے مگر معقول حد سے زیادہ اسکی ذخیرہ اندوزی کی اجازت نہیں دیتا۔ کورونا وبا کیا پھیل گئی کچھ لوگوں کو ایسا خبط سوار ہو گیا ہے کہ انہیں نہ تو دوسروں کی پرواہ ہے اور نہ ہی اپنی انسانیت کی۔
حال ہی میں نامعلوم مقام سے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک شخص نے (ظاہراً) کورونا کے سبب پیش آنے والے حالات کو دیکھتے ہوئے، اپنے پورے گھر کو ایک مال گودام میں تبدیل کر دیا ہے۔
ویڈیو دیکھ کر دو اہم سوال ذہن میں آتے ہیں:
ا) اگر مان بھی لیا جائے کہ اُس نے یہ کام اپنے بچوں کی خاطر کیا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کے لئے تمام سامان زندگی اس طرح فراہم کر دیا جائے کہ انہیں خطرات کے ماحول میں گھر سے نہ نکلنا پڑے، تو کیا یہ مناسب تھا کہ وہ اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اسے شیئر کرے اور اس طرح نادار اور غریب افراد کی دل آزادی کے اسباب فراہم کرے؟
۲) اگر سبھی با حیثیت لوگ اس طرز پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھروں میں ذخیرہ اندوزی کریں اور انہیں مال گودام میں تبدیل کر دیں، تو پھر اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟
ایک معقول حد میں دین اسلام نے ہر شخص کو سامان زندگی فراہم کرنے اور اسکی ذخیرہ اندوزی کی اجازت دی ہے لیکن اگر یہ عمل حد سے اس طرح تجاوز کر جائے کہ انسان کا گھر مال کا گودام نظر آنے لگے اور اُس سے بازاری نظام متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ لازمی وسائل زندگی میں قلت کا خدشہ پیدا ہو جائے، تو دین اسلام اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔
اسکے علاوہ یہ کہ جن افراد کو خدائے سبحان نے نعمتوں سے نوازا ہے، انہیں اظہار نعمت کا حق ضرور ہے مگر اس انداز میں کہ اُس پر دکھاوے کا عنوان صادق نہ آئے! انہیں یہ حق نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ایسا طور طریقہ اپنائیں کہ انہیں دیکھ کر نادار اور بے بضاعت افراد کی دل آزاری ہو۔